فرقہ پرستی کے خلاف ’’آواز‘‘ اُٹھانے کی ضرورت

   

پروفیسر اپوروا نند
ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ایک ظالمانہ روش اختیار کی جارہی ہے اور انہیں فرقہ پرست اپنی شیطانی حرکتوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ایسا بہت کم سننے میں آتا ہے جس میں کوئی بااثر شخصیت یا بااثر افراد یہ کہتے ہوں کہ ہندوتوا کی سیاست ہندوؤں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور انہیں اس قسم کی سیاست کی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ان کے مفادات کے خلاف ہے۔ چونکہ کوئی بھی ہندوتوا سیاست کے خلاف بولنے یا اس کی مخالفت کرنے کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتا، اسی وجہ سے ہندو نوجوان نفرت سے بھرپور ہجوم میں تبدیل ہورہے ہیں اور اپنی توجہ اہم سلگتے مسائل سے ہٹاکر غیرضروری مسائل میں الجھتے جارہے ہیں حالانکہ ہندوتوا کے نوجوانوں کو اپنے متعلق ضرور غوروفکر کرنا چاہئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندو نوجوان بیروزگاری کے بارے میں کیوں نہیں سوچتا یا پھر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ پر اپنی توجہ مرکوز کیوں نہیں کرتا، ویسے بھی ہندوتوا کے گروہ مسلمانوں کو اس لئے نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے ہندو سلگتے مسائل پر توجہ مرکوز نہ کرسکیں۔اہم مسائل سے ان کی توجہ ہٹ جائے۔ اگر دیکھا جائے تو عام ہندوؤں کو بھی مخالف مسلم لہر میں بہانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تشدد کی اس سیاست نے ہندوؤں کو کافی بدنام کردیا ہے۔ عالمی سطح پر ہندوؤں کے بارے میں جو تصور پایا جاتا ہے وہ شدید طور پر متاثر ہوگیا ہے۔ آج ہندوؤں کے بہی خواہ فکرمند ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف ان لوگوں کی سرگرمیاں ہیں جو ہندوتوا سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو ایک صبر و تحمل اور قوت برداشت کی حامل مذہبی برادری کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن آج یہ حال ہوگیا ہے کہ ہندوؤں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنگ نظر کمیونٹی سمجھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ متعصب کمیونٹی قرار دیا جارہا ہے۔ حیرت اور اس سے بدترین بات یہ ہے کہ اگرچہ ہندوتوا طاقتیں اپنی حرکتوں کے ذریعہ ہندو مذہب کو نقصان پہنچا رہی ہیں، ساتھ ہی وہ یہ نہیں سمجھ پا رہی ہیں کہ نفرت کی اس سیاست سے ملک کی معیشت تباہ و برباد ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر آج ہندوتوا کے نام پر نفرت کی سیاست کرنے والے ملک کے بعض مقامات پر حلال غذا، حلال سرٹیفکیٹ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں ہے کہ حلال غذا کے خلاف ان کی مہم اصل میں ہندوستان کی برآمدی تجارت یا کاروبار کو نقصان پہنچا ئے، کیونکہ حلال سرٹیفکیٹ کے نتیجہ میں ہی زیادہ تر ہندوؤں کی تیار کردہ یا پیدا کردہ غذائی اشیاء مسلم اکثریتی ممالک یہاں تک کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی قابل قبول ہے۔ اگر ہندوتوا فورسیس کے مطالبہ پر حلال سرٹیفکیٹ کی اجرائی کو غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے تو اس کا اثر ہندوستان اور زیادہ تر ہندوؤں کے کاروبار پر مرتب ہوگا اور ان کا ناقابل تصور نقصان ہوگا۔
بڑھتی فرقہ پرستی کے تناظر میں کرن مجمدار شاہ نے بھی اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران مسلم کاروباری اداروں اور تاجرین پر حملوں کے بڑھتے واقعات اور مسلم تاجرین کے بائیکاٹ کے بڑھتے مطالبات کے پیش نظر کرن مجمدار شاہ نے کچھ اس طرح ٹوئٹ کیا’’ کرناٹک نے ہمیشہ مشمولیات معاشی ترقی کی راہ اپنائی ہے، لیکن موجودہ حالات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ان حالات میں ہمیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کیونکہ اگر یہ راہ فرقہ پرست بن جائے تو پھر وہ ہماری عالمی قیادت کو تباہ کردے گی۔ کرن مجمدار شاہ نے جیسے ہی کرناٹک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے رہنماؤں نے ان پر تنقیدوں کی بارش کردی۔ آئی ٹی سیل کا کہنا تھا کہ 2002ء کے گجرات فسادات کے بعد بھی راہول بجاج جیسے صنعت کاروں نے اسی قسم کی تنقید کی تھی، لیکن وہ لوگ غلط ثابت ہوئے۔ اس تنقید کے بعد کرن مجمدار شاہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ کرناٹک کے چیف منسٹر ایس آر بومائی اس مسئلہ کو پرامن طور پر حل کریں گے۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں حجاب کو مسئلہ بنانے کے بعد فرقہ پرستوں نے اپنی غیرقانونی حرکتوں کے ذریعہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کی تھی، یہاں تک کہ ہندوتوا کی بعض تنظیموں نے مسلمانوں کے تجارتی بائیکاٹ پر زور دیا تھا۔ جس کے بعد کرن مجمدار شاہ نے آگے بڑھتے ہوئے حکومت ِکرناٹک کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس طرح کے واقعات کے انسداد کو یقینی بنائیں کیونکہ اس سے عالمی سطح پر ہندوستان اور خاص طور پر ہمارے ملک کی ’’وادیٔ سیلیکان‘‘ کہلانے والے شہر بنگلورو کی شبیہ متاثر ہوگئی ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر کو مشورہ دیا تھا کہ فریقین کے درمیان تنازعات کو فوری حل کریں کیونکہ تجارتی بائیکاٹ کی اپیلیں کچھ نہیں بلکہ مسلمانوں پر یکطرفہ حملہ ہے اور اس طرح کے حملوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔ بائیوٹیک کی سربراہ کرن مجمدار شاہ نے انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ ہندوتوا گروپوں کا نام لئے بناء امن کی اہمیت کو واضح کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا سیاست، ہندوستانی تجارت اور اس کی عالمی قیادت کیلئے بہت ہی نقصان دہ ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ کے مطابق 2002ء گجرات فسادات کے بعد وہاں کے آٹوموبائیل شعبہ نے غیرمعمولی ترقی کی۔ امیت مالیہ بالکل صحیح ہے۔ بحیثیت تجارتی مرکز ’’گجرات‘‘ کی شبیہ داغ دار نہیں ہوئی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا رتن ٹاٹا نے خود 2002ء کے بعد گجرات میں اپنی فیاکٹریاں قائم کیں اور نریندر مودی کو ہندوستان کے مستقبل کے لیڈر کی حیثیت سے دیکھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گجرات قتل عام جو مودی کے اقتدار میں ہوا تھا (سپریم کورٹ نے سال 2004ء میں اُنہیں عصر حاضر کے ہیرو کی حیثیت سے تعبیر کیا تھا)۔ خطرناک حالات کے باوجود مودی کی قیادت میں گجرات ، صنعتی گھرانوں کا پسندیدہ مرکز رہا۔ مسلمانوں کو دیوار سے لگا دینے اور خاموش کردینے کے باوجود گجرات کی شبیہ متاثر نہیں ہوئی۔ 2014ء تک بھی ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد خاص کر ہندو ،گجرات کو ’’ایک ماڈل‘‘ کے طور پر دیکھا کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی بھی ریاست یا ہندوستان گجرات بن جائے جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت کی ایک لہر چل پڑی تھی۔ ایک بات ضرور ہے کہ جب تک ترقی اور صنعتی فائدہ حاصل ہوتا رہے، یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ مسلمانوں کو تشدد کا سامنا ہے یا نہیں اور پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد ، گجرات کی کہانی میں ایک غیرمتعلقہ حاشیہ بن گیا۔ آج جو کوئی یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد نہ برپا کیا جائے تو اس کے خلاف بی جے پی آئی ٹی سیل اور اس کے حامی ایک محاذ کھول دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا ہم سب کیلئے بہت مشکل ہے کہ ہندوستانی معاشرے کو ایسا نہیں بننا چاہئے جو مسلمانوں پر مظالم کو دیکھتا رہے اور اسے برداشت کرتا رہے یا پھر اس کے نقصان کیلئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں ایسی حکومت کو منتخب نہیں کرنا چاہئے جو تشدد برپا کرنے میں لوگوں کی مذہب کی بنیاد پر حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ آج تمام ہندوستانیوں کو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ مسلمانوں پر کئے جانے والے تشدد اور ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی مذمت کرنے میں ہچکچاتے ہیں تو پھر آنے والے دنوں میں اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا ہوگا۔ مستقبل میں اس کے جو اثرات مرتب ہوں گے، اس کی زد میں جہاں تشدد برپا کرنے والے آئیں گے، وہیں خاموشی اختیار کرنے والے بھی اس کا شکار بنیں گے۔ آج تمام ہندوستانیوں کو ضمیر کی آواز پر آگے بڑھتے ہوئے فرقہ پرستوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ کیونکہ ہندوتوا کی سیاست یقینا ہندوستانی مسلمانوں اور عیسائیوں کی بقاء کیلئے تباہ کن ہے۔ جہاں تک ہندوتوا کا سوال ہے، یہ ایک انتہائی قدیم نظریاتی پراجیکٹ ہے جو مسلم دشمن اور عیسائی دشمن ہے اور حقیقت میں دیکھا جائے تو عام ہندوستانی ہندو اس کا نشانہ ہے۔ ان خیالات کو سارہ اطہر نے اپنے ایک مضمون میں قلمبند کیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان میںپٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ ایل پی جی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کبھی مسلمانوں کے قتل عام کی دھمکیاں دی جارہی ہیں تو کبھی ان کی خواتین کے اغوا اور عصمت ریزی کا انتباہ دیا جارہا ہے، یہ سب کچھ حقیقی عوامی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کی تضحیک کرتے ہوئے، ان کا استحصال کرتے ہوئے یا انہیں قتل کرتے ہوئے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ ایک اچھا ہندو بنے گا تو وہ اس کی غلط فہمی ہے۔ مذہب کے نام پر ایک مسلمان یا عیسائی کی زندگی کو ختم کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے، کیونکہ اس ملک کے دستور نے انہیں حق زندگی عطا کیا ہے اور وہ جس طرح چاہیں اپنی زندگی گذار سکتے ہیں۔ بحیثیت شہری انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی ہندو کو حاصل ہیں۔