فقط خدا سے ہی انصاف کی امید رکھو

,

   

7 حجاب کے خلاف فیصلہ … حکومت کے ایجنڈہ کی تکمیل
7 کانگریس اور G-23 … احسان کا بدلہ سازش کیوں

رشیدالدین
عدلیہ ، مقننہ اور عاملہ جمہوریت کے اہم ستون ہیں اور ان میں عدلیہ کی اہمیت اس اعتبار سے زیادہ ہے کہ وہ مقننہ اور عاملہ کے فیصلوں کی جانچ کا حق رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ ، اسمبلی یا پھر حکومت جب کبھی دستور اور قانون کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو عدلیہ کو اختیار ہے کہ وہ مداخلت کرے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عدلیہ کو دستور اور قانون کے محافظ کا درجہ حاصل ہے۔ ملک کی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں جہاں عدلیہ نے غیر دستوری طور پر معزول کی گئی حکومتوں کو بحال کیا ۔ عدلیہ آج بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے اور جب کوئی حکومت اور نظم و نسق سے مایوس ہوجائے تو آخری سہارا عدلیہ ہے۔ حالیہ چند برسوں میں عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی پر سوال اٹھنے لگے۔ ماہرین قانون اور دستور کی رائے کے مطابق جب سے عدلیہ کے امور میں حکومت کی مداخلت ہونے لگی ، اس وقت سے حکومتوں کے اشارہ پر فیصلے آنے لگے ہیں۔ عدلیہ کے تقررات اور ترقی میں جب سے میرٹ کی جگہ پیروی اور سفارش چلنے لگی ، فیصلوں پر اثر پڑنے لگا۔ بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ نے عدلیہ کے وقار کو مجروح کردیا کیونکہ رام مندر کے حق میں فیصلہ کے فوری بعد اس وقت کے چیف جسٹس کو راجیہ سبھا کی نشست بطور تحفہ پیش کی گئی۔ مرکز میں نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہر شعبہ میں سنگھ پریوار کی مداخلت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ گجرات فسادات میں امیت شاہ کو جیل بھیجنے والے جج کو اہلیت کے باوجود ترقی سے محروم رکھا گیا۔ اسی طرح کئی اور بھی مثالیں موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح عدلیہ کی آزادی کو قید کرنے کی کوشش کی گئی۔ عدلیہ کا کام دستور کا تحفظ اور پاسداری ہے جس کے تحت مختلف مذاہب کے پرسنل لاز بھی آتے ہیں۔ دستور میں ہر شہری کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی ترویج کی اجازت دی ہے۔ ہر مذہب کا ماننے والا اپنی شریعت پر عمل کرنے کیلئے آزاد ہے ۔ ہر شہری کو اپنی پسند کی غذا اور لباس کے بارے میں اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت کے تحفظ کے بجائے اگر عدالت شریعت کی تشریح کرنے لگ جائے تو پھر علماء کی ضرورت کیا رہے گی۔ ہندوستان میں دیگر مذاہب حتیٰ کہ عیسائی ، سکھ ، بدھسٹ اور جین جیسے چھوٹے اقلیتی طبقات کے پرسنل لا محفوظ ہیں اور کسی حکومت اور عدالت نے ان کے پرسنل لا میں تبدیلی تو دور کی بات ہے ، کسی نکتہ پر اعتراض کرنے کی جسارت نہیں کی لیکن شریعت اسلامی کے خلاف عدلیہ کے فیصلوں اور حکومتوں کی قانون سازی عام ہوچکی ہے ۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کیلئے عدلیہ اور حکومتوں کا رویہ تعصب اور جانبداری پر مبنی کیوں ہے؟ ظاہر ہے جس سے خطرہ محسوس ہو ، اسے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر دنیا بھر میں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ لہذا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں نے شرعی احکامات میں خامیاں تلاش کرنی شروع کردیں۔ کبھی قانون سازی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کی گئی تو کبھی عدالتوں کا سہارا لیا گیا ۔ دیگر مذاہب اور اقلیتی طبقات کے پرسنل لا محفوظ ہونے کی ایک اہم وجہ ان طبقات میں اتحاد ہے۔ سکھوں سے پگڑی ، داڑھی ، کرپان ، تلوار کی روایت کو کوئی طاقت چیلنج کر کے تو دکھائے۔ بدھسٹ اورجین کی مذہبی رسومات پر کسی حکومت اور عدالت نے انگلی نہیں اٹھائی۔ برخلاف اس کے شریعت اسلامی میں وقتاً فوقتاً مداخلت کا سلسلہ جاری ہے جس کے لئے مسلمانوںکی بے حسی ذمہ دار ہے۔ چھوٹے طبقات متحد ہیں اور مسلمان 73 سے زائد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مسلمان جب متحد تھے تو راجیو گاندھی حکومت کو دستوری ترمیم کے ذریعہ شریعت کے خلاف عدالت کے فیصلہ کو کالعدم کرنا پڑا لیکن آج مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادتیں اپنا اثر کھوچکی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بجائے جب مفادات کو ترجیح دی جائے تو جرات ، بے باکی اور حوصلہ مندی کی جگہ مصلحت پسندی ، بزدلی اور کنارہ کشی جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی بدخدمتی نے مسلمانوں کا وقار ختم کردیا۔ مسلمانوں کے نام پر سودہ بازی سے قوم پر ’’فار سیل ‘‘ کا لیبل لگ گیا اور جو زیادہ بولی دے گا ، مسلمانوں کو اس کا ووٹ بینک بنادیا جاتا ہے ۔ شریعت میں مداخلت پر بے حسی کا شکار مسلمانوں اور ان کی قیادتوں کو ٹاملناڈو کے عوام سے سبق لینا چاہئے جنہوں نے محض ایک تہذیبی روایت کے تحفظ کیلئے سڑکوں پر نکل کر مرکز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ سپریم کورٹ نے ایک قدیم روایت جل کٹو پر پابندی لگادی ، جس میں جانوروں کی دوڑ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ یہ روایت مذہبی نہیں بلکہ ایک سماجی تہوار کا حصہ ہے لیکن چینائی کا ہر فرد چاہے وہ سیاستداں ، فلم اسٹار ، صنعت کار الغرض دولتمند اور غریب ہر کوئی سڑک پر بیٹھ گیا ۔ مرکز نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم کرتے ہوئے جل کٹو روایت کو برقرار رکھا۔ یہ تھی عوامی طاقت حالانکہ یہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں تھا لیکن افسوس کہ شریعت اسلامی پر مسلسل وار ہورہے ہیں لیکن مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہونے تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ شریعت سے دوری اور عدم وابستگی ہے۔ جس چیز سے دلچسپی ہو ، انسان اس کے نقصان پر بے چین ہوجاتا ہے اور اسے بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے لیکن یہاں شریعت سے تعلق محض رسمی بن کر رہ گیا ہے۔ طلاق ثلاثہ کے بعد اب حجاب کو اسلام سے علحدہ کرنے کی سازش ہے ۔ طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کے وقت مسلمان دینی حمیت کا مظاہرہ کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ شریعت میں کیا ضروری ہے کیا نہیں اس کا فیصلہ علماء اور مفتیان کرام کے بجائے عدالت کے ججس کرنے لگیں تو ملک کا کیا ہوگا ؟ جب دستور میں ہر شہر کو پسند اختیار کرنے کا حق دیا ہے تو حکومت اور عدالت کو حجاب پر پابندی کا ا ختیار کس طرح مل گیا ۔ مسلمانوں کی شناخت مذہبی تشخص ختم کرنے کیلئے حجاب کو نشانہ بنایا گیا۔ شرعی مسئلہ پر فیصلہ دینے سے قبل عدالت کو کسی دینی ادارہ سے رجوع کرنا چاہئے تھا۔ قرآن مجید میں حجاب کا واضح حکم ہے اور یہ شریعت کا لازمی حصہ ہے لیکن مطالعہ کئے بغیر مخالف شریعت فیصلہ نے عدالت کی غیر جانبداری کو مشکوک بنادیا ہے ۔ بابری مسجد مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ آج حجاب کے بارے میں کہا گیا تو کل ہوسکتا ہے داڑھی اور ٹوپی کے بارے میں بھی یہی بات کہی جائے گی۔ اور یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔
قابل مبارکباد ہیں کرناٹک کی وہ طالبات جنہوں نے حجاب کے تحفظ کے لئے امتحانات کے بائیکاٹ کو ترجیح دی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کرناٹک کے باہر اس بارے میں مسلمانوں میں سناٹا چھایا ہوا ہے اور لوگ اسے کرناٹک کا مسئلہ تصور کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے عروج و زوال پر گہری نظر رکھنے والی جہاندیدہ شخصیت نے کہا کہ دراصل حرام خوری اور حرام کاری دو ایسی لعنتیں ہیں، جو مسلمانوں میں عام ہوچکی ہیں جس کے نتیجہ میں ایمان کمزور ہوچکا ہے۔ بیانات ، تقاریر اور مضامین سے جذبہ واپس نہیں آئے گا بلکہ ان دو لعنتوں کو ترک کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف 137 سالہ تاریخ رکھنے والی کانگریس پارٹی سخت امتحان سے گزر رہی ہے ۔ بزرگوں کا قول ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ ٹھیک اسی طرح ناراض قائدین پر مشتمل G-23 گروپ نے پارٹی کو کمزور کرنے کا بیڑہ اٹھالیا ہے۔ G-23 میں وہ قائدین ہیں جن کی شناخت کانگریس سے ہے اور کانگریس نے انہیں ہمیشہ عہدوں پر رکھا۔ یہ وہ قائدین ہیں جو کبھی بھی عوام سے منتخب نہیں ہوئے بلکہ نامزد ہوتے رہے ہیں۔ یہ قائدین خود کو کانگریس کا حقیقی وارث ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کانگریس سے اتنی ہی ناراضگی یا بیزارگی ہے تو اس پارٹی کا رخ کرلیں جن کے اشاروں پر وہ ناچ رہے ہیں۔ پارٹی کو مستحکم بنانے میں اگر واقعی دلچسپی ہے تو اظہار کا طریقہ کار یہ نہیں ہوسکتا۔ برسر عام قیادت کو چلنج کرنا سینئر قائدین کا شیوہ بن چکا ہے جو احسان مندی کے بجائے احسان فراموشی کا اشارہ دے رہا ہے۔ دھاندلیوں کے ذریعہ بی جے پی کی کامیابی کو یہ نہ سمجھیں کہ کانگریس ختم ہوچکی ہے۔ سرکاری مشنری کے بیجا استعمال کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنے کا فن بی جے پی نے سیکھ لیا ہے۔ G-23 کی قیادت کرنے والے غلام نبی آزاد کو اندرا گاندھی ، راہول گاندھی اور منموہن سنگھ وزارتوں میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے ، اس کے علاوہ پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن کی ذمہ داری دی تھی۔ باوجود اس کے قیادت کی مخالفت کرنا دفعہ 370 کے خاتمہ اور کشمیری عوام کے حقوق پر سمجھوتہ کے مترادف ہوگا۔ پارٹی پر قابو پانے سے قبل غلام نبی آزاد اپنے بھتیجہ پر کنٹرول کریں جو بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ جوہر کانپوری نے کیا خوب مشورہ دیا ہے ؎
فقط خدا سے ہی انصاف کی امید رکھو
عدالتوں کو تو قاتل خرید لیتے ہیں