فقیر دستِ طلب اپنا کیوں دراز کرے

   

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی

کورونا وائرس جو کہ اب تک دنیا بھر کے تقریباً دو سو ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ 2,698,733سے زیادہ لوگ اس سے متاثر ہو چکے ہیں اور 190,089سے زائد لوگ اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ چینی شہر ووہان سے شروع ہونے والا یہ وبائی مرض کون جانتا تھا کہ ایک دن ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ آج دنیا بھر میں ڈر اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اپنے گھروں میں قید انسان اس وقت صرف اپنی زندگی بچانے کی تگ و دو میں ہے۔ ہندوستان بھر میں ابھی تک تقریباً 23,452سے زائد کورونا کے کیسس سامنے آئے ہیں اور اموات کی تعداد 723ہے ۔
اس آفت نے جہاں عام آدمی کو ایک عجب ڈر اور خوف کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے وہیں عام آدمی اس وقت جس جذبے سے اپنے آس پاس کے ضرورت مند لوگوں کا خیال رکھتے نظر آرہے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ ہمارے ڈاکٹر، نرسیں، پیرا میڈیکل اور اسپتالوں کے عملہ کے ساتھ محکمہ پولیس و دیگر اتنے کم وسائل میں جس تندہی سے ہماری بقا کی جنگ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کے لڑ رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے ۔ اُن کا ہم سے صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ گھروں میں رہیں، محفوظ رہیں کیونکہ اس عفریت کا مقابلہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم غیر ضروری گھروں سے باہر نہ نکلیں اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
اسلام نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا خاص خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ غرباء، مساکین، ضرورتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنا اسلام میں اُتنا ہی اہم ہے جتنا دیگر عبادات کو اہمیت دی گئی ہے۔ مخلوق خدا کو اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے زکوٰۃ،صدقہ اورخیرات کرنا انتہائی بہتر عمل ہے۔اللہ سلامت رکھے مولائے کائنات کے نام ’’حیدر‘‘ سے سے منسوب حیدرآباد کے اُن مخیر حضرات کو کہ جب کبھی عالم انسانیت کسی پریشانی میں گھرجاتی ہے تو اُن کی امداد کے لئے اپنا دست طلب دراز کرتے ہیں ۔ لیکن حالیہ سوشل میڈیا کے دور نے ایک نئی بیماری کو جنم دیا ہے کہ ’’نیکی کر سوشل میڈیا پر ڈال‘‘ ۔ امداد کی ان تصاویرکو نا صرف وائرل کیا جاتا ہے بلکہ دوست احباب کو لائک اور شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ کمنٹ کرنے کی درخواست بھی کی جاتی ہے، جس سے ان سفید پوش شرفاء کا سارا بھرم چکنا چور ہو جاتا ہے۔ جس معاشرے میں وہ رہ رہے ہوتے ہیں وہاں ان کا اور ان کے بچوں کا نا صرف تمسخر اُڑایا جاتا ہے بلکہ لوگ ان سے رشتے داریاں قائم کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اسلام میں زکوٰۃ اور خیرات دینے اور لینے کے احکامات کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ نادار، مفلس اور ضرورتمند افراد بھی معاشرے میں باعزت زندگی گزار سکیں نہ کہ وہ معاشرے پر بوجھ بنیں اور بگاڑ کا سبب بنیں۔ ’’وقت وقت کی بات ہوتی ہے‘‘ یہ محاورہ ہم سب نے سنا ہوگا۔ جی ہاں وقت کا سفاک بہاؤ ہی زندگی کو نت نئی صورتوں سے دوچار کرتا ہے۔ کبھی صورت خوشگوار ہوتی ہے اور کبھی تکلیف دہ۔ ہم سب وقت کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔کسی نے کب سوچا تھا کہ خوشحال امریکی بھی کبھی خیرات میں کھانا حاصل کریں گے۔ مگر کورونا کی وبا نے ان کی سفید پوشی کا بھرم رہنے نہیں دیا۔میر تقی میرؔ نے شاید اسی دور کی عکاسی میں اُس وقت لکھا ؎
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں اُنہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
‘دی نیو یارک ٹائمز’ میں کارا بکلی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بہت سے سفید پوش امریکی زندگی میں پہلی مرتبہ بیروزگاری الاؤنس اور خیراتی رقوم کیلئے درخواست کرنے لگے ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں ایک فوڈ بنک کے باہر کاروں کی لمبی قطار لگی تھی اور اس میں ایسی کار سے لے کر جس کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی شیورلیٹ تاہو اور جیگوار جیسی مہنگی اور بڑی بڑی گاڑیاں بھی موجود تھیں۔جس کی تصاویر ساری دنیا میں وائرل ہوئی ۔
اسلامی تعلیمات تو ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ایک ہاتھ سے ایسے مدد کرو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہولیکن چند عناصر خیرات جیسے نیک عمل کی سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم اور تشہیر کرنے میں جٹ گئے ہیں، جس کے نتیجہ میں سفید پوش طبقہ خیرات، زکوٰۃ کی تقسیم کے باوجود سامنے آ کر لینے سے کتراتا ہے کہ کہیں اس کی تشہیر سے رشتہ داروں اور قرب و جوار میں لوگ ان کو حقیر نہ جانیں اور وہ معاشرے میں لوگوں سے نظریں نہ چراتا پھرے۔

لوگ گروپ کی صورت میں محض ایک نادار و نخیف شخص کو آٹے کا ایک تھیلا پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے اس مسکین کے تاثرات کا جائزہ لیا ہے جو شرمندگی کے باعث اپنا منہ چھپا رہا ہوتا ہے۔ جو بھوک سے مرنے لگا تھا اب تو وہ غیرت سے مر گیا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ کورونا وائرس نے ہمیں آئینہ دکھلا دیا ہے کہ ہمارا احساس اخلاقیات کی کس کسوٹی پر ہے۔ گردش ایام سفید پوش حضرات کو شاپنگ مالز کے باہر لے آئی ہے۔ جہاں چھوٹی چھوٹی اشیاء بیچ رہے ہوتے ہیں مگر کسی سے سوال نہیں کرتے۔
حضرت عمر ؓ کے دور حکومت کی مثالیں موجود ہیں کہ وہ رات کے اندھیرے میں کندھے پر سامان رکھ کر لوگوں کے گھروں میں پہنچایا کرتے تھے تاکہ ان کی سفید پوشی کا بھرم برقرار رہے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ صاحب استطاعت افراد کو چاہیے کہ وہ مخلوق خدا کی مدد اس انداز سے کریں جیسے خالق حقیقی ان کی مدد فرماتا ہے۔
مولانا حسن رضا خاں بریلوی نے کیا خوب لکھا ؎
بھیک بے مانگے فقیروں کو جہاں ملتی ہو
دونوں عالم میں وہ دروازہ ہے کس کا تیرا
یقینا سارے عالم میں اگر بھیک بے مانگے فقیروں کو ملنے کاکوئی دروازہ ہے تو وہ صرف ایک ہی دروازہ ہے اور وہ محمدﷺ اور آلِ محمد ﷺکا ہے ۔ بقول کسی شاعر کے ؎
مزہ تو جب ہے کہ پھیلے نہ ہاتھ اور بھرے
فقیر دستِ طلب اپنا کیوں دراز کرے
لاک ڈاؤن کے ان مصائب کے ایام میں جب جگہ جگہ ’’ایک کیلو آلو پانچ دیالو‘‘ تقسیم کرتے ہوئے ویڈیو و تصاویر بناکر فیس بک پر وائرل کررہے تھے ایسے عالم میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے اہل و عیال کے لئے ضروری اشیاء کے بندوبست کیلئے روزمرہ کے کام و کاج میں مصروف تھا کہ دفعتاً فون کی گھنٹی بجی … اسکرین پر جب نام دیکھا تو مودب ہوگیا اور سلام عرض کرنے سے قبل ہی سامنے سے سلام، خیریت کے ساتھ دریافت کیا گیا کہ کیا آپ گھر پر موجود ہیں ۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو بڑی ہی انکساری کے ساتھ کہا گیا کہ ’’دروازے پر میرا بھتیجا آپ کے لئے کچھ ہدیہ لایا ہے اسے شرف قبولیت عطا کیجئے …‘‘میں کام سے فارغ ہونے کے بعد گھر واپس ہوتے وقت سوچنے لگا کہ اس قحطِ رجال کے دور میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سامنے والے کی سفید پوشی کا بھرم اس انداز میں رکھتے ہیں کہ اُس سے ہی انکساری سے عرض کرتے ہیں کہ اسے قبول کرکے شرفِ قبولیت بخشیں ۔ بیشک یہ ’’اولیاء‘‘ کی صفت ہے ۔ سچ ہے نام کی بھی بڑی تاثیر ہوتی ہے ۔ ہمارے آقا و مولا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ و سلم کی سخاوت کی مثال پیش کرتے ہوئے سخاوت میں ضرب المثل حاتم بن طائی کی مثال دی جاتی ہے کہ حاتم بن طائی کے گھر کے 11 دروازے تھے اور حاجت مند ہر دروازے پر آکر طلب کرتا اور حاتم اُنھیں بغیر کسی اعتراض کے ہر دروازے پر دیا کرتا ، اس پر اہل علم نے فرمایا کہ حاتم جتنا 11 دروازے پر دیتا تھا سرکاردوعالم ﷺ سائل کو ایک مرتبہ ہی عطا کردیتے تھے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں ایک شخص (صفوان بن امیہ) نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سوال کیا اِن دو پہاڑوں کے درمیان جتنی بکریاں ہیں یہ سب مجھے دیدیجئے، دو پہاڑوں کا درمیانی جنگل بکریوں سے بھرا ہوا تھا ،حضور اکرم ﷺ نے تمام بکریاں اس کو عطا فرمادیں اس نے اپنی قوم میں جا کر کہا: اے میری قوم تم اسلام قبول کرلو اللہ کی قسم!محمدؐ ایسی سخاوت کرتے ہیں کہ فقر سے نہیں ڈرتے۔(مشکوۃ)حضرت خواجہ شوق ؔ نے کہا ؎
کرم کی آنکھ نہیں دیکھتی لباسوں کو
خلوصِ نیت سائل تلاش کرتی ہے
میں سائل ہوں مگر اے شوقؔ اُن کے در کا سائل ہوں
کرم جن کا کبھی شرمندۂ سائل نہیں ہوتا