امجد خان
ساری دنیا بالخصوص عالمی ادارے اور وہ حکومتیں جو اسرائیل کی مسلسل تائید کررہی ہیں اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و جبر کی حد کردی اور پوری ہٹ دھرمی و بے شرمی کے ساتھ فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ اسرائیل 7 اکٹوبر 2023ء سے فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرتا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں اب تک 45250 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے جس میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے فضائی و زمینی حملوں میں 107338 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں 70 فیصد زخمیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مستقل طور پر معذور ہوچکے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقیت ہے کہ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں غزہ ایک طرح سے قبرستان میں تبدیل ہوگیا۔ ہر طرف منہدم عمارتوں کا ملبہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملبہ کے ڈھیروں میں ہنوز بے شمار شہدا دبے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ منظر عام پر اائی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کو پانی تک رسائی سے محروم کردیا۔ ایچ آر ڈبلیو نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے مسلسل اقدامات کرتا جارہا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں پانی اور صفائی کے بنیادی ڈھانچوں کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا نتیجہ میں ہزاروں فلسطینی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ عمل انسانیت کے خلاف نسل کشی کے جرم کے مترادف ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی یہ رپورٹ 179 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ غزہ جنگ بندی معاہدے پر بات چیت کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مصر کا دورہ بھی کیا۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسرائیل غزہ میں ایک سال سے زائد عرصہ سے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کرتا جارہا ہے جس کا اندازہ ڈاکٹرس وتھا ئوٹ بارڈرس کی GAZA DEATH TRAP نامی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس نے درندگی کی تمام حدود کو پھلانگ دیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حکومت پانی کی قلت کو ایک جنگی آلہ اور جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ لبنان اور شام کے کئی اہم علاقوں کو تباہ و برباد کرنے اور ایران پر فضائی حملوں کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل۔امریکہ یمن کو ملیامیٹ کرنے اور حوثیوں کے اثر کو ختم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یمن میں بندرگاہوں اور دفاعی لحاظ سے اہمیت کی حامل سہولتوں پر یہ دونوں ملک میزائلوں اور فضائی حملوں کی بارش کررہے ہیں جواب میں حوثی بھی اسرائیل پر میزائل داغ کر اس کے حوصلہ پست کرنے میں مصروف ہے۔ حال ہی میں حوثیوں نے ایسے ریڈیوز جاری کئے جس میں خاص طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے تل ابیب پر ہائپر سونک میزائل داغے ہیں۔ حوثی اسرائیل کو بیلسٹک میزائلوں سے بھی حملوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمہ اور حیات التحریر کے منظر عام پر آنے کے بعد علاقہ میں ایران کا کردار گھٹ کر رہ گیا ہے کیوں کہ شام میں روس کے ساتھ ایران بشارالاسد اور ان کی حکومت کی پوری طرح مدد کررہا تھا جبکہ حزب اللہ کو اسلحہ کی فراہمی کا بھی شام ایک اہم ذریعہ بن گیا تھا جس سے حزب اللہ اور پھر فلسطینی مجاہدین کی دفاعی لحاظ سے بہت مدد کی جارہی تھی۔ تاہم شام میں آئی حالیہ سیاسی تبدیلیوں نے علاقہ میں ایران کے کردار کی سمت تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ ایک طرف اسرائیل شام کے گولان پہاڑیوں پر اپنا کنٹرول قائم کرچکا ہے۔ امریکہ اور عالمی برادری کو اس کی کوئی پرواہ نہیں جبکہ بائیڈن انتظامیہ نے جس کے اقتدار کے چند دن ہی باقی رہ گئے ہیں (ڈونالڈ ٹرمپ 20 جنوری 2025ء کو صدارتی عہدہ کا حلف لیں گے) حیات التحریر سے رابطہ قائم کرکے شام میں ایک جامع حکومت کے قیام پر زور دیا ہے۔ امریکہ بظاہر شام کی مدد کرنے کا خواہاں ہے لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے اسرائیل کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ کو اگر شام اور شام کے مظلوم عوام سے ہمدردی ہوتی تو وہ شام کے گولان پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضہ کو برخواست کروانے کی بات کرتا جہاں تک اسرائیلی فورسس کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کا سوال ہے، اس معاملہ میں امریکہ اور اس کے دوسرے اتحادی پوری طرح اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور ایک ظالم کو مظلوم اور متاثر کے طور پر پیش کرنے میں وہ ذراسی بھی شرم محسوس نہیں کررہے ہیں۔ تعجب و حیرت کی بات یہ ہے کہ ارض مقدس پر ناجائزہ قبصہ بھی عربوں کے علاقہ ہڑپ لینے اور وقفہ وقفہ سے اور مختلف بہانوں سے فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کے باوجود اسرائیل کے خلاف پابندیوں اور کاروائیوں کی امریکہ اور اس کے اتحادی مطالبہ نہیں کرتے جبکہ ایران اور دوسرے مسلم ملکوں پر بنا کسی جواز کے پابندی عائد کرکے انٹرنیشنل پولیس میان کا کردار ادا کیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر ضرور حیرت ہوگی کہ انسانیت کی وکالت کرنے والے امریکہ نے فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کو ایک سال کے دوران 17 ارب ڈالرس کی امداد فراہم کی ہے جبکہ یوروپی یونین بھی ریسرچ کے نام پر اسرائیل کی مدد کررہی ہے۔ مثال کے طور پر جب سے اسرائیل۔فلسطین جنگ کا آغاز ہوا، اسرائیلی تنظیموں کو جس میں کچھ اسرائیلی فوج سے جڑی ہوئی ہیں 250 ملین ڈالرس یوروپی یونین نے فراہم کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں الجزیرہ کے فیڈرپ کامرس نے تحقیقات کی ہے کہ ااخر یوروپی یونین کی جانب سے دیئے گئے فنڈس کا کہاں استعمال ہوا ہے۔ اب بات کرتے ہیں ایران۔ امریکہ کشیدگی کے بارے میں، دونوں ملکوں کے درمیان کافی تنائو پایا جاتا ہے۔ خاص کر ایران کے جوہری پروگرام کو لے کر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک حد سے زیادہ پریشان ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ایران کے گردن میں بھی غلامی کا طوق ڈال کر علاقہ میں من مانی کریں۔ اس ضمن میں امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کا ایک بیان منظر عام پر آیا جن میں انہو ںنے کہا کہ ایران کو اپنی خارجہ پالیسی پر ازسر نو غور کرنا چاہئے ساتھ ہی اپنی معیشت پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیوںکہ سال 2024ء میں اسے کئی ایک معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چہارشنبہ کو خارجی تعلقات سے متعلق کونسل سے خطاب میں انٹونی بلنکن نے پرزور انداز میں دعوی کیا کہ اسرائیل۔تہران کے اتحادیوں حزب اللہ اور حماس اور خود ایران کے فوجی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانے میں کامیابی حاصل کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سال 2024ء ایران کے لیے بہتر نہیں رہا۔ ان حالات میں ایران کو چاہئے کہ وہ اپنی اور عوام کی ترقی پر توجہ مرکوز کرے اور خود کو علاقہ میں تنازعات اور علاقہ کے ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت سے دور رکھے۔ واضح رہے کہ آئندہ ماہ ڈونالڈ ٹرمپ عہدہ صدارت کا حلف لیں گے اور وہ ایران کے سخت مخالف اور اسرائیل کے کٹر حامی ہیں۔