فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالممودی حکومت کی مجرمانہ خاموشی

   

سونیا گاندھی

غزہ میں اسرائیل کی درندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں 7 اکٹوبر 2023ء سے اب تک تقریباً 70 ہزار فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ زائداز ایک لاکھ 60 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ شہداء اور زخمیوں میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار پر بھروسہ کریں تو اب تک اسرائیل کے زمینی حملوں، فضائی حملوں بالخصوص بمباری اور میزائیل حملوں میں تاحال 2 لاکھ سے زائد فلسطینی شہید اور تقریباً 4 لاکھ زخمی ہوگئے جبکہ 11 تا 15 ہزار ابھی بھی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایک طرف امریکہ اسرائیل کی بھرپور مدد کررہا ہے تو دوسری طرف خود نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت فلسطینیوں کے قتل عام، نسل کشی اور ان کی نسلی تطہیر پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطینیوں اور فلسطینی کاز کی تائید و حمایت کی۔ مہاتما گاندھی سے لیکر پنڈت جواہرلال نہرو، اندرا گاندھی سب کے سب نے فلسطینیوں کی تائید و حمایت کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا۔ خود بی جے پی کے قدآور لیڈر سابق وزیراعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی نے بھی فلسطینیوں کی تائید و حمایت کی تھی لیکن افسوس کہ نریندر مودی حکومت ہندوستان کی اس پالیسی سے پوری طرح انحراف کرچکی ہے اور اسرائیل کی درپردہ مدد میں مصروف ہے۔ مودی حکومت کی مجرمانہ خاموشی کے خلاف سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی مسلسل آواز اُٹھارہے ہیں۔ سونیا گاندھی دی ہندو جیسے انگریزی کے مؤقر اخبار میں اپنے مضامین کے ذریعہ مودی حکومت کو اس مسئلہ پر شرم دلاتی ہی ہیں۔ ذیل میں ان کے مضمون کا اقتباس پیش کیا جارہا ہے۔
فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرنے والے برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں اب فرانس بھی شامل ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں فرانسیسی صدر ایمانول میکرون نے پرزور انداز میں اعلان کیاکہ فرانس فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ ان ملکوں کا فلسطین کو علیحدہ ریاست تسلیم کرنا کئی دہوں سے پریشان اور حالات کے ستائے ہوئے (اسرائیل کے مظالم سہنے والے فلسطینیوں) کی جائز خواہش کی تکمیل کی جانب پہلا قدم ہے۔ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 150 سے زائد ملکوں نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے اور جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے یہ بات بناء کسی جھجھک کے کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان نے اس معاملہ میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی برسوں تائید و حمایت کے بعد 18 نومبر 1988ء کو ہی فلسطینیوں کو ایک ریاست، ایک ملک کے طور پر تسلیم کیا۔ ہندوستان کا وہ فیصلہ اصل میں اخلاقی بنیادوں پر تھا اور عالمی سطح پر ہماری پالیسی ہمارے نقطہ نظر کی بنیاد پر تھا۔ اسی طرح الجیریا کی جدوجہد آزادی (1954-62) کے دوران بھی ہندوستان الجیریا کی آزادی کے لئے اُٹھنے والی مضبوط آوازوں میں سے ایک آواز بن کر اُبھرا۔ ہندوستان نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ سامراجی طاقتوں کے خلاف فیصلہ کن میدان جنگ کو عالمی برادری کسی بھی طرح فراموش نہ کرے۔ مثال کے طور پر 1971ء میں مشرقی پاکستان میں قتل عام کو روکنے کی خاطر ہندوستان نے پوری قوت کے ساتھ مداخلت کی اور جس وقت ویتنام میں خون ریزی جاری تھی اور ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی لیکن ہندوستان نے اخلاقی جرأت و ہمت کا غیرمعمولی مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں امن و امان بحال کرنے کا مطالبہ کیا اور ویتنامی عوام کے خلاف بیرونی مظالم و جارحیت کی پوری شدت سے مخالفت کی یہاں تک کہ آج بھی ہندوستان اقوام متحدہ امن فورس میں اپنے بڑے دستے شامل رکھتے ہوئے عالمی امن میں اہم کردار ادا کررہا ہے جبکہ عالمی امن و سلامتی کا فروغ ہماری ریاستی پالیسی کا ہدایتی اُصولوں میں سے ایک ہے اور جسے ہمارے دستور میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔ اسرائیل ۔ فلسطین جیسے انتہائی اہم نازک اور حساس مسئلہ پر ہندوستان نے نازک لیکن اُصولی موقف برسوں سے اپنایا ہے اور امن و حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے پابند عہد بھی ہے۔ آپ کو یہ بھی بتادوں کہ ہندوستان ان ملکوں میں سرفہرست ہے جنھوں نے سب سے پہلے 1974ء میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو تسلیم کیا اور مسلسل دو ریاستی حل کی تائید و حمایت کی۔ ساتھ ہی ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات برقرار رکھے۔ ہندوستان نے کئی بین الاقوامی فورمس اور پلیٹ فارمس پر جیسے اقوام متحدہ، غیر جانبدارانہ تحریک اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بات چیت کے ذریعہ مسئلہ فلسطین حل کیا جائے۔ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی جائے، تشدد روکا جائے، ہندوستان نے ہمیشہ فلسطین کو انسانی اور ترقیاتی امداد فراہم کی ہے جس میں فلسطینی طلبہ کے لئے اسکالرشپس، تعلیم اور نگہداشت صحت کے شعبہ میں مدد اور غزہ و مغربی کنارہ میں اداروں میں صلاحیتوں کے فروغ کے اقدامات شامل ہیں۔
بہرحال مسئلہ فلسطین پر مودی حکومت کا جو معاندانہ رویہ ہے وہ حقیقت میں گہری خاموشی اور انسانیت و اخلاقی اقدار سے دستبرداری کے مترادف ہے جبکہ ہندوستان کو فلسطین اور مظلوم فلسطینیوں کے لئے قیادت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جو یقینا فی الوقت انصاف، شناخت، وقار و احترام اور انسانی حقوق کی جنگ بن چکا ہے۔ ہندوستان کی عالمی سطح پر جو شبیہ ہے وہ ایک شخص کی شخصی عزت و حوصلہ افزائی یا تاریخی کارناموں پر منحصر نہیں ہوسکتی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور پرتگال جیسے ملکوں نے فلسطین کو تسلیم کیا ہے اور یہ طویل عرصہ سے پریشان فلسطینی عوام کی جائز خواہش کی تکمیل کی سمت پہلا قدم ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت اس سنگین و حساس مسئلہ پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کررہی ہے۔ 7 اکٹوبر 2023ء کو اسرائیلی شہروں پر حماس کے وحشیانہ حملوں کے بعد اسرائیل نے جس قسم کے ردعمل کا اظہار کیا وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جاچکے ہیں جن میں 17 ہزار سے زائد بچے شامل ہیں۔ غزہ میں بستیاں اُجڑ چکی ہیں، تعلیم اور نگہداشت صحت کا بنیادی ڈھانچہ پوری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ زراعت و صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غذائی اشیاء، ادویات اور دوسرے امدادی سامان کی ترسیل کو روکتے ہوئے غزہ کے مکینوں کو قحط جیسے حالات میں ڈھکیل دیا ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ غزہ میں ظلم کی انتہا ہوچکی، کئی ایک ملکوں کی جانب سے فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کئے جانے سے متعلق فیصلہ نہ صرف خوش آئند بلکہ ایک طویل انتظار کے بعد کا اقدام ہے۔ مودی حکومت اس قدر سنگین مسئلہ پر خاموش ہے اور وہ اپنی خاموشی کو غیر جانبداری کا نام دے کر اپنے فرض سے فرار اختیار کررہی ہے۔ سب کو اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ خاموشی غیر جانبداری نہیں بلکہ انسانیت اور مظلومین کے تئیں اپنے فرض اور اپنی ذمہ داری سے گریز کرنا، اس سے راہ فراری اختیار کرنا ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے اسرائیل کی تائید و حمایت کا سلسلہ جاری رکھا، کئی ایک ملکوں کا فلسطین کو تسلیم کرنا اِن ملکوں کی غیر جانبدارانہ پالیسی سے ہٹ کر ایک بہت بڑا قدم ہے۔ جہاں تک مودی حکومت کی پالیسی کا سوال ہے اس کی پالیسی وزیراعظم نریندر مودی اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے شخصی تعلقات پر مبنی ہیں اور یہ پالیسی ہندوستان کے دستوری اقدار اور اسٹراٹیجک مفادات سے میل نہیں کھاتی۔ مودی کی یہ شخصی سفارتکاری ناقابل عمل ہے اور جو کسی بھی طرح ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کا رہنمایانہ اُصول بن سکتی ہے۔ دو ہفتہ قبل ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدہ پر دستخط کئے اور اسرائیل کے متنازعہ وزیر کی جن کا دائیں بازو سے تعلق ہے اور جنھوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دی، میزبانی کی جس پر عالمی سطح پر بھی نکتہ چینی کی گئی۔ فلسطینی طویل عرصہ سے ظلم و جبر کا شکار ہیں، ان کی زمین پر قبضہ کیا گیا ہے، ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، وہ محاصرہ میں ہیں، ایسے میں ان کی مدد ہندوستان کا فرض بنتا ہے۔