فلسطینیوں کا جبری انخلا تسلیم کرنے سے انکار

   

غزہ: اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کے جنوبی، وسطی اور شمالی علاقوں سمیت نئے علاقوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے ، رات بھر کی بمباری میں تقریباً 14 فلسطینی شہید ہوگئے ۔الجزیرہ کے مطابق غزہ کے متعدد رہائشیوں نے جبری انخلا پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کرکے واضح کیا ہے کہ ان کے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے ، اب وہ اسرائیلی فوج کے گھر بار خالی کرنے کے احکامات کو تسلیم نہیں کریں گے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے کی جانے والی کارروائیوں کی اقوام متحدہ، یورپی یونین، چین، سعودی عرب، مصر، پاکستان، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے مذمت کی ہے ، اسی طرح اسرائیل کے شہر تل ابیب میں یرغمالیوں کے اہلخانہ اور دوستوں نے احتجاج کیا، امریکہ کے شہر نیو یارک میں بھی فلسطین کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور امریکہ سے اسرائیل کو غزہ پر بمباری رکوانے کا مطالبہ کیا۔گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی حصوں خاص طور پر بیت حنون پر پمفلٹ گرائے ، جن میں فلسطینیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔انہوں نے خان یونس پر پمفلٹ بھی گرائے ، جن میں فلسطینیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ المواسی کے مغربی حصے میں چلے جائیں لیکن اس بار بہت سے فلسطینیوں، خاص طور پر بیت حنون اور دیگر شمالی علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں نے انخلا نہ کرنے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے اور وہ نقل مکانی کے سفر کو دہرانے سے انکار کرتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی خاتون رکن الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز (اے او سی) نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ نیتن یاہو نے غزہ کو جانے والی امداد 2 ہفتوں سے روک رکھی ہے ، اسی کے حکم پر بمباری سے 400 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے ، اسرائیل کے یرغمالیوں کو خطرے میں ڈالا گیا اور جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کو اپنے قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے اور اسرائیل کو مزید ہتھیاروں کی منتقلی کو روک دینا چاہیے ۔