محمد ریاض
اسرائیل فلسطین جنگ میں فلسطینیوں کی قربانیوں، اسرائیل کی درندگی، وحشیانہ فضائی حملوں، ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی بچوں کی شہادتوں اور غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کئے جانے کے باوجود فلسطینیوں کے صبر و شکر نے ایک دنیا کو حیران کردیا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر اس قدر تباہی و بربادی، اپنے عزیز و رشتہ داروں کی شہادت، پانی، بجلی، فیول اور خوراک سے محرومی کے باوجود فلسطینی اپنے رب کا شکر ادا کررہے ہیں۔ صابر و شاکر بن کر ابھر رہے ہیں۔ ان کے لبوں پر اپنے رب سے کوئی شکایت نہیں۔ ان کے اس عزم و استقلال کی کیا وجوہات ہیں۔ اس ضمن میں لوگوں نے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کردیا۔ ایسے ہی لوگوں میں شکاگو میں رہنے والی 34 سالہ میگن بی رائس بھی شامل ہیں۔ انہیں مطالعہ کا بہت شوق ہے۔ اب اس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو غزہ میں انسانی بحران سے متعلق بات کرنے کیلئے استعمال کیا ہے۔ حال ہی میں دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس نے کچھ یوں کہا ’’میں فلسطینیوں کے ایمان و عقیدہ کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ ان کا ایمان ان کا عقیدہ بہت مضبوط ہے اور لاکھ تباہی و بربادی، زبردست جانی و مالی نقصانات، رنج و الم، شدید مشکلات و مصائب میں بھی وہ اپنے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان سے سب کچھ چھین لئے جانے پر بھی ان کی زبان سے جو الفاظ ادا ہوتے ہیں وہ اپنے رب کے حضور شکر کے ہوتے ہیں۔ اگرچہ بعض مسلم فالوورس یہ کہتے ہیں کہ شاید میگن دین اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید کے مطالعہ میں دلچسپی رکھتی ہو، یہی وجہ ہیکہ اس نے ’’ورلڈ ریلیجن بک کلب‘‘ کا اہتمام کیا جہاں تمام مذہبی پس منظر کے حامل لوگ اس کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ کرسکیں۔ ویسے بھی قرآن مجید کا یہ معجزہ ہیکہ جو لوگ قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں، اللہ عزوجل ان کے اذہان و قلوب کو نور ایمان سے منور کردیتا ہے۔ چنانچہ میگن نے قرآن مجید کے مطالعہ شروع کرنے کے اندرون ماہ کلمہ شہادت پڑھ کر دامن اسلام میں پناہ لے لی۔ اب وہ نہ صرف حجاب کا اہتمام کرتی ہے بلکہ اسلامی تعلیمات پر چلنے کی پوری پوری کوشش بھی کرتی ہے۔ دی گارجین اور ڈیلی آن لائن میں شائع رپورٹس میں واضح طور پر کئی خواتین کے قرآن مجید کا مطالعہ کرنے اور دین اسلام قبول کرنے سے متعلق واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے سطورہ بالا میں رائس کی کہانی پڑھی ہے۔ اس معاملہ میں صرف رائس ہی واحد خاتون نہیں ہے بلکہ ایسی بے شمار خواتین ہیں جو اسرائیل کی درندگی اور فلسطینیوں کے جذبہ شہادت ان کے صبر و شکر کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئی ہیں کہ ان لوگوں نے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کیا اور پھر خود کو دین اسلام میں ڈھال لیا۔ یہ خواتین اب باقاعدہ حجاب کرتی ہیں اور دوسروں کو بھی یہ بتاتی ہیں کہ اسرائیل کس طرح فلسطینیوں پر ظلم کررہا ہے۔ اپنی تمام تر طاقت جھونک کر فلسطینیوں کی زندگیوں کو اس نے اجیرن کر رکھا ہے۔ اگرچہ ٹک ٹاک کو معاشرہ میں فحش کاموں کی گندگی پھیلانے والا پلیٹ فارم کہا جاتا ہے لیکن اس پلیٹ فارم کو اللہ رب العزت نے اپنے بے شمار بندوں کو کفر و شرک اور گمراہی کے دلدل سے نکالنے اور ان کے اذہان و قلوب کو ایمان کے نور سے منور کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ صرف رائس نے ہی ٹک ٹاک پر قرآن مجید کا مطالعہ نہیں کیا بلکہ مغربی میڈیا نے اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں، بدگمانیاں پیدا کی، اسے دور کرنے کیلئے نوجوان غیرمسلم خواتین نے ٹک ٹاک پر چند منٹ کی تلاوت قرآن پاک، آیات قرآنی کا ترجمہ سنا، اس کا مطالعہ کیا اور پھر ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ بے شک مغربی میڈیا مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں گمراہ کن پروپگنڈہ اور جھوٹ پھیلانے میں مصروف تھا۔ ان نوجوان خواتین نے جیسے جیسے قرآن مجید کا مطالعہ کیا، اللہ نے ان کیلئے وسیع الذہنی اور وسیع القلبی کا سامان پیدا کیا اور وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے ساتھ اظہاریگانگت کرنے لگی۔ اس ضمن میں ہیش ٹیگ ’’قرآن بک کلب‘‘ کے ذریعہ بہت سارے ویڈیوز اپ لوڈ کئے گئے اور اس ایپ پر 1.9 ملین ویوز درج کئے گئے۔ اگرچہ کچھ لوگ قرآن مجید کا آن لائن مطالعہ کررہے ہیں۔ کچھ سوشل میڈیا پر آیات قرآنی کی سماعت کررہے ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو کام پر جاتے ہوئے گاڑی میں ہی قرأت کلام پاک سن کر اپنے علم میں اضافہ کررہے ہیں۔ جس سے انہیں پتہ چل رہا ہیکہ مغربی میڈیا جان بوجھ کر اسلام کو بدنام کرنے میں مصروف تھا۔ یہ الفاظ ذی گارجین ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ میں استعمال کئے گئے ہیں جس کا عنوان ’’نوجوان امریکی مسلم فلسطینیوں کی ابھرنے کی قوت کو سمجھنے کیلئے قرآن کا مطالعہ کررہے ہیں‘‘۔ اس میں ان نوجوان امریکی خواتین کے بارے میں بتایا گیا جو فلسطینیوں کے جذبہ ایمان اور ایمانی قوت سے متاثر ہیں، چند ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن کے مفت آن لائن ورژن سے استفادہ کررہے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بعض امریکی نوجوان قرآن مجید کا ہدیہ ادا کرکے حاصل کرتے ہوئے مطالعہ کرنے لگے ہیں۔ اسی طرح # Book Tok Space پر بھی جہاں اکثر خواتین جمع ہوکر کتابوں پر تبصرہ کرتی ہیں، قرآن مجید پر بھی بات کررہے ہیں۔ Yale میں اسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی Zareena Grewal جو فی الوقت قرآن مجید اور امریکی تہذیب و ثقافت میں مذہبی رواداری سے متعلق ایک کتاب پر کام کررہی ہیں، ان کا کہنا ہیکہ ٹک ٹاک پر اس معاملہ میں دلچسپی کوئی نئی نہیں ہے۔ خاص طور پر 9/11 کے بعد تو امریکہ اور مغربی معاشرہ میں قرآن مجید کا بے تحاشہ لوگوں نے خرید کر مطالعہ کیا اور قرآن مجید سب سے زیادہ فروخت ہوئے۔ زرینہ مزید کمہتی ہیں کہ فرق یہ ہیکہ اس مرتبہ لوگ 7 اکٹوبر کو حماس نے جو حملہ کیا اسے سمجھنے کیلئے قرآن مجید کا مطالعہ نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھنے کیلئے قرآن مجید کا مطالعہ کرنے لگے ہیں کہ آخر اسرائیل کے انتہائی ظلم و جبر کے باوجود فلسطینی کس طرح دوبارہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کے عقیدہ و ایمان، ان کے ناقابل یقین بلند حوصلوں و عزائم اور اخلاق و کردار سمجھنے کیلئے قرآن مجید کا مطالعہ شروع کیا ہے۔
ٹمپا فلوریڈا کی رہنے والی 35 سالہ NEFARTARI MOONN نے فلسطینیوں کے جذبہ ایمانی اور جذبہ حریت کو سمجھنے کی خاطر اپنے شوہر کے پاس موجود قرآن مجید کا مطالعہ شروع کیا۔ ان کے شوہر کوئی راسخ العقیدہ، مسلمان نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود کو مذہبی نہیں سمجھتی۔ وہ اپنے شوہر کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ عام مسلمان ہیں چنانچہ وہ کچھ یوں کہتے ہیں ’’میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ جب بھی مسلمانوں (فلسطینیوں) کو موت کا سامنا ہوتا ہے وہ خود کو اللہ سے رجوع کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان سے میری جذباتی وابستگی ہوگئی۔ بہرحال اس وجہ سے مون نے بھی کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ قرآن مجید کے مطالعہ اور کلمہ شہادت پڑھنے سے جو کیفیت مجھ پر طاری ہوئی، اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔ میں نے ایسا محسوس کیا جیسے میرا وجود روشن ہوگیا ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے وہ نعمت مل گئی جس کا میں انتظار کررہی تھی۔ ایسا لگا کہ میں اپنوں میں واپس آگئی۔ قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا ہیکہ اللہ کے سامنے مرد و خواتین برابر ہیں۔ رائس اور دین اسلامی قبول کرنے والے دیگر ٹک ٹاکر کہتے ہیں کہ قرآن میں حقوق نسواں کی بات کئی گئی ہے اور مخلوق کی تخلیق کے بارے میں سائنٹفک وضاحت کی گئی ہے اور قرآن مجید میں Big Bang اور دوسرے نظریات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ رائس کہتی ہیں کہ اکثر دیکھا گیا ہیکہ لوگ سائنس کو اہمیت دیتے ہیں اور قرآن میں تمام سائنسی علوم موجود ہیں۔ اسلام کی حقانیت جان کر مسلمان ہونے والوں میں Sylvia-chan Malik بھی شامل ہیں جو فی الوقت Rutgers University میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ سردست امریکہ اسلام اور اسلاموفوبیا کی تاریخ پر تحقیق کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ اسلام کے قریب آئیں تو پتہ چلا کہ میڈیا جس منفی انداز میں اسلام کو پیش کرتا ہے وہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔