ایک ماہ میں 636 حملے، مسلم اراضی اور املاک غصب ، گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے:رپورٹ
راملہ : اسرائیل میں دائیں بازو کے عناصر پر مشتمل شدت پسند حکومت کی طرف سے فلسطینیوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کردیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کی اراضی اور املاک کو غصب کرنے کے ساتھ ان کے بنے بنائے گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فروری 2023ء کے دوران صہیونی قابض فوج نے غرب اردن میں فلسطینیوں کے 56 مکانات مسمار کیے جب کہ 66 خاندانوں کو اپنے مکانات مسمار کرنے کے نوٹس جاری کیے گئے۔غرب اردن میں یہودی آباد کاری اور نسل دیوار کے سرگرم مزاحمتی کمیشن کے مطابق پچھلے سال غرب اردن میں سیکڑوں مکانات کو مسمار کیا گیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شہری جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پرمجبور ہوئے۔کمیشن کی طرف سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابض فوج اور آباد کاروں نے گذشتہ ماہ فلسطینیوں اور ان کی املاک پر 636 حملے کیے۔اسی عرصے میں یہودی آباد کاری کے 23 نئے منصوبوں کی منظوری دی گئی جن میں یہودی آباد کاروں کو بسانے کے لیے مزید 4625 رہائشی فلیٹس کی تیاری کی منظوری دی گئی۔سیٹلمنٹ اینڈ وال ریزسٹنس کمیشن کے کوآرڈینیٹر، امیر داؤد نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی قابض حکام کی طرف سے تقریباً 15,000 مکانات کی منظوری کے بعد اس سال کے آغاز سے یہودی آباد کاری میں تیزی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل طرف فلسطینیوں کے مکانات مسمار کرکے ان پر عرصہ حیات تنگ کررہا ہے اور دوسری طرف قابض ریاست فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کو بسانے کے لیے اندھا دھند منصوبوں کی منظوری دے رہی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ قابض حکام نے گذشتہ ماہ کے دوران مقبوضہ بیت المقدس میں تقریباً 41 تنصیبات کو مسمار اور بلڈوز کیا جن میں سے 13 کو جبری طور پر خود ساختہ مسمار کر دیا گیا، اس کے علاوہ کھدائی اور زمین کو ہموار کرنے کے تین آپریشن بھی کیے گئے۔
رمضان سے قبل بیت المقدس کے 80 فلسطینیوں کے مکانات کو انہدام کا خطرہ
فلسطینی تجزیہ نگاروںنے خبردار کیا ہے کہ انتہا پسند اسرائیلی حکومت مقبوضہ بیت المقدس کے الشیخ جراح اور سلوان کے مقامات پر فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کے نئے منصوبے پرغور کررہی ہے۔ خدشہ ہے کہ رمضان المبارک سے قبل سلوان اور الشیخ جراح میں 80 سے زائد فلسطینیوں کو بے گھر کردیا جائے گا یا ان کے مکانات مسمار کردیے جائیں گے۔رواں ماہ کے دوران قابض اسرائیل کی عدالتیں بے دخلی اور نقل مکانی کے مقدمات کی ممکنہ طور پر فیصلہ کن سماعت کر رہی ہیں، جو ایک وقت میں 80 سے زائد القدس کے باشندوں کو درپیش حقیقی خطرے سے خبردار کرتی ہیں۔انتہا پسند قابض حکومت بے دخلی اور اکھاڑ پچھاڑ کا سب سے بڑا آپریشن کر رہی ہے، جس نے پرانے شہر، الشیخ جراح محلے اور سلوان قصبے میں درجنوں خاندانوں کو ان کے گھروں سے محروم کر دیا ہے۔فوری طور پر بے دخلی کے خطرات پرانے شہر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں 150 سے زائد خاندانوں تک پھیلے ہوئے ہیں، جن کی تعداد تقریباً 1,000 ہے۔