محمد ریاض احمد
فلسطین ۔ اسرائیل جنگ کا 7 اکٹوبر 2023 کو آغاز ہوا، حماس جنگجوؤں کے غیر معمولی بلکہ خطرناک حملوں کے بعد اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کا بڑی بیدردی سے قتلِ عام کیا اور ان کی نسلی تطہیر شروع کی‘ اسرائیلی درندگی سے امریکہ اور اس کے چند ایک اتحادیوں کو چھوڑ کر دنیا بھر کی حکومتیں اور عوام بھی دہل کر رہ گئے۔ دنیا کے امن پسند اور انصاف پسند انسانیت نواز لوگوں میں اس بات کو لیکر حیرت اور صدمہ کی لہر دوڑ گئی کہ آخر امریکہ اور اس کے اتحادی ملک کیسے بے قصور فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کی تائید و حمایت کررہے ہیں۔ امریکہ نے تو جوبائیڈن انتظامیہ کی قیادت میں مظلوم ونہتے فلسطینیوں کی مدد اور اسرائیل پر انسانیت کے خلاف اس کے جنگی جرائم کی پاداش میں پابندیاں عائد کرنے ( حالانکہ عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر اس کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسرائیل کے سابق وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے ) کے بجائے ایک سال کے دوران سرائیل کو 17 ارب ڈالرس کی امداد فراہم کی (15 ماہ کے دوران امریکہ نے اسرائیل کو 26 ارب ڈالرس کی امداد فراہم کی)۔ یہی نہیں اسرائیل کی مدد اور اس کی حفاظت کیلئے امریکی بحری بیڑے بھی پہنچ گئے۔ اسی طرح امریکی بم، امریکی گولہ بارود اور انسانیت کے خاتمہ کیلئے بڑی بے شرمی سے استعمال کرنے ہتھیار بھی اسرائیل کو فراہم کئے گئے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے قتلِ عام کیلئے امریکی ہتھیاروں کا بڑے پیمانہ پر استعمال کیا۔
فلسطین اور فلسطینیوں کو تباہ و برباد کرنے والے اسرائیل کی مدد میں امریکہ نے کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ اس نے یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ کس طرح اسرائیل فلسطینی ماؤں اور ان کے نومولود و شیرخوار اور کمسن بچوں کو قتل کر رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں اب تو عالمی فوجداری عدالت کے اہلکاروں پر پابندیوں کا بل منظور ہوگیا، اس نے یہ بل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوان گیلنٹ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر منظور کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ‘ اسرائیل کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلسطینیوں کے قتلِ عام میں جتنا اسرائیل ذمہ دار ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی مدد کرنے والے ممالک بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ ایک قابض‘ ظالم و جابر حکومت کی مدد کررہے ہیں۔ فلسطین۔اسرائیل جنگ کو 15 ماہ ہوچکے ہیں‘ اسرائیل ہر روز فلسطینی اسپتالوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیز کی عمارتوں یہاں تک کہ پناہ گزین کیمپوں پر فضائی اور زمینی حملے کرتے ہوئے انہیں تباہ کررہا ہے۔ خود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سے لے کر اس کی ذیلی اداروں کے سربراہوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کو قبرستان میں تبدیل کردیا۔ 80 فیصد غزہ ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق46 ہزار سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ ایک لاکھ 9 ہزار سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہوئے ( ان میں 50 فیصد سے زائد مستقل طور پر معذور ہوچکے ہیں ) اس کے برعکس طبی جریدہ ’ لانسیٹ‘ کے مطابق اس جنگ کے ابتدائی 9 ماہ میں جو فلسطینی اسرائیل کی درندگی میں شہید ہوئے ان کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔
پچھلے سال 30 جون تک سرکاری اعداد و شمار میں 37877 فلسطینیوں کے شہید ہونے کی بات کہی گئی تھی جبکہ اس وقت فلسطینی شہداء کی حقیقی تعداد 64260 تھی جس میں 59.1 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ’ الجزیرہ‘ کے مطابق صرف ڈسمبر 2024 میں 8 نومولودHypo thermia سے متاثر ہوکر جاں بحق ہوئے اور 2025 کے ابتدائی 9 دنوں میں شدید سردی کے باعث 74 فلسطینی بچے موت کی آغوش میں پہنچ گئے۔ اسرائیل کی درندگی کی حوصلہ افزائی میں امریکہ کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیل کو امریکہ نے جنگ کے ابتدائی دیڑھ ماہ کے دوران 22 ہزار بم فراہم کئے جن میں 2000 پاؤنڈ کے بنک بسٹرس بھی شامل تھے۔ امریکہ نے اس مدت کے دوران 50 ہزار آرٹیلری شیلس (Artellery Shells) فراہم کئے۔ جون 2024 کو منظرِ عام پر آئی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے 7 اکٹوبر سے جون 2024 تک غزہ پر 70,000 ٹن بم برسائے ، نومبر 2023 میں منظرِ عام پر آئی میڈیا رپورٹس میں یوروفیڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے حوالے سے انکشاف کیا گیا کہ اسرائیل نے 12 ہزار مقامات پر بم برسائے اور وہ بھی فی فلسطینی 10 کلو گرام دھماکو مادہ سے زیادہ کے حساب سے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ نے اگسٹ 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جو نیو کلیئر بم گرائے تھے ان کا وزن 15000 ٹن تھا۔ اسرائیل کی بمباری میں ایک ہی خاندان کے 80 سے لیکر 60 افراد بھی شہید ہوئے جبکہ ایک ہی خاندان کے 10 تا 15 افراد کے شہید ہونے کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ سال 2025 کے آغاز کے 9 دن میں اسرائیل کے حملوں میں 500 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔
اسرائیل نے اپنے حامیوں بالخصوص امریکہ کی تائید و حمایت سے صرف فلسطینیوں کا ہی قتل عام نہیں کیا بلکہ لبنان کو بھی تباہ کرکے رکھ دیا۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اب شام کے بڑے حصہ پر بھی قابض ہوگیا۔ یمن پر بھی امریکہ کے ساتھ وقفہ وقفہ سے فضائی حملے کرتا جارہا ہے۔ اگر محتاط اندازہ بھی لگایا جائے اور سرکاری اعداد و شمار پر یقین کرلیا جائے تو اسرائیل نے ایک اسرائیلی کے بدلے 41 فلسطینیوں کا قتل کیا ہے لیکن عالمی برادری، عالمی ادارے اور خود ساختہ بڑی طاقتیں بڑی بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ اسرائیلی درندگی کا تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ جیسا کہ راقم الحروف نے آپ کو بتایا کہ شہدا میں فلسطینی بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ ہر روز غزہ میں اسرائیلی درندگی کے نتیجہ میں دردناک مناظر دیکھے جارہے ہیں۔ کہیں جام شہادت نوش کرنے والی فلسطینی ماں کی کوک سے مستقبل کا فلسطینی مجاہد جنم لے رہا تو کہیں ایسے فلسطینی نومولودوں کو بھی دیکھا گیا جنھوں نے اس دنیا میں آنکھ کھولنے کے چند گھنٹوں میں ہی اسرائیلی بمباری کی زد میں آکر اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور دیگر ارکان خاندان کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ ایسے کئی فلسطینی نومولود ہیں جن کے ایک ہی دن میں برتھ سرٹیفکٹ اور ڈیتھ سرٹیفکٹ جاری کئے گئے۔ فلسطین میں ایک ایسا منظر عام بھی دیکھا گیا جہاں ایک 8 سالہ بچہ اپنی شہید ماں کی قبر سے لپٹا سو رہا ہے اس معصوم کا کہنا ہے کہ اسے اپنی ماں کی گود میں سونے کی عادت ہے اور جب وہ اپنی ماں کی قبر سے لپٹ کر سوتا ہے تو اسے سکون ملتا ہے۔ دنیا نے ایسے فلسطینی بچوں کو بھی دیکھا ہے جنھوں نے روتے ہوئے دنیا بالخصوص عالم اسلام کو خبردار کیاکہ اسرائیل کی فسطائیت اس کی درندگی پر تم لوگ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہو، تمہاری خاموشی اسرائیل کی بالواسطہ مدد ہے یاد رکھو کہ ہم جب شہید ہوکر بارگاہ رب العزت میں پہنچیں گے تب اپنے رب سے تمہاری شکایت کریں گے اور بتائیں گے یا رب ذوالجلال جب فلسطینی بچوں، ماؤں، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اسرائیل قتل عام کررہا تھا، ہماری بستیاں اُجاڑ رہا تھا، تاریخی آثار مٹارہا تھا، تیرا نام لینے والے تجھ پر ایمان رکھنے والے، تیرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا کلمہ پڑھنے والوں نے بھی ہماری مدد نہیں کی۔ ہم پانی کے قطرہ قطرہ کو ترستے رہے، روٹی کے محتاج ہوگئے، ان لوگوں نے ہماری مدد کے بجائے ہمارے دشمن کی، دشمنان اسلام کی مدد کی اور یہ سب کچھ اپنے اقتدار کی برقراری کے لئے کیا گیا۔ فلسطینی میں ہر روز ایسے بے شمار مناظر دیکھے جارہے ہیں جہاں معصوم بچوں نے اپنی شہادت سے قبل ہی اپنے لباس، اپنے کھلونوں اور اپنے جوتے چپلوں، اپنی کتابوں کو دوسرے بہن بھائیوں اور ضرورت مند فلسطینی بچوں میں تقسیم کی وصیت کی ہے اور ایک فلسطینی شہید بچی نے تو اپنی وصیت میں والدین سے کہاکہ میرے پیارے بابا پیاری امی میرے بھیا احمد کو ڈانٹ ڈپٹ نہ کرنا انھیں غصہ نہ کرنا، اس بچی کو کیا پتہ کہ اس کے بھائی احمد کو بھی اللہ نے شہید کے مرتبہ پر فائز کیا۔ حال ہی میں دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا جب ایک تین سالہ فلسطینی بچہ اور 22 ماہ کی اس کی بہن اسرائیل کے فضائی حملہ میں شدید زخمی ہوکر اسپتال پہنچ گئے جہاں دونوں کے پیر جسم سے علیحدہ کردیئے گئے، بھائی بڑی تکلیف سے بات کرتے ہوئے اپنی چھوٹی بہن سے پوچھتا ہے ہماری امی کہاں ہے (اسے کیا پتہ کہ اس کی امی بھی شہید ہوگئی ہیں) میرے پیر کہاں ہیں؟ فلسطین میں اس طرح کے المناک دردناک مناظر ہر روز دیکھے جارہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسطینی مظلومین اور بچوں کی آہیں ان کی بددُعائیں خالی جائیں گی؟ ہرگز نہیں! اس ضمن میں ہم امریکی اداکار جیمس ووڈ کی مثال پیش کرتے ہیں جس نے اسرائیل کی تائید و حمایت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ان سب کو قتل کردو، ان کا نام و نشان مٹادو۔ واضح رہے کہ اسے دو مرتبہ آسکر کے لئے نامزد کیا گیا اور 3 مرتبہ اسے ایمی ایوارڈس حاصل ہوئے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے لاس اینجلس میں بھڑکی آگ نے اس کے گھر کو بھی جلاکر راکھ کردیا۔ سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ رو پڑا۔ تب سوشل میڈیا صارفین نے اسے فلسطینیوں کے درد و الم کی یاد دلائی اور کہاکہ شائد تمہیں تباہی و بربادی سے متاثر ہونے کے درد کا اب اندازہ ہوا ہوگا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اسرائیل کے سب سے بڑا حامی امریکہ حالیہ عرصہ کے دوران طوفان سے شدید متاثر ہوا۔ اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا۔ کیا یہ فلسطینیوں کی ہائے اور ان کی بددعاؤں کا نتیجہ نہیں ہے؟ لاس اینجلس میں 36 ہزار ایکر علاقہ آگ کی زد میں آگیا۔ 12000 مکانات جلکر خاکستر ہوگئے۔ نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 150 ارب ڈالرس لگایا گیا۔ کم از کم 11 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ صرف انشورنس شعبہ کو 8 ارب ڈالرس کا اب تک نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیا یہ ظالموں کے خلاف اور ظالموں کی مدد کرنے والوں سے قدرت کا انتقام نہیں ہے؟ امریکہ خود کو سوپر پاور سمجھتا ہے، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کردہ قراردادوں کو ویٹو کرتا ہے۔ اس کے پاس ہر قسم کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ میزائیل، راکٹس سے لے کر ہر قسم کے ہتھیاروں کا مقابلہ کرسکتا ہے لیکن مظلوموں کی ہائے اور ان کی بددعاؤں کا مقابلہ کرنے انہیں روکنے کی اس کے پاس ٹیکنالوجی نہیں۔ ویسے بھی قدرت جب انتقام لیتی ہے تو دنیا کوئی طاقت اُس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔