فلسطینیوں کے شوق شہادت سے اسرائیل پریشاناسرائیلی فورسیس کی گولیاں فلسطینی بچوں کے کھلونے

   

سیاست فیچر
ارض مقدس فلسطین میں اسرائیلی جنونیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی انتہا پسند، ایک جمہوری ریاست نہیں چاہتے بلکہ ایک مذہبی مملکت کے خواہاں ہے۔ نتیجہ میں فلسطین میں بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی برپا کی جارہی ہے جس کی لپیٹ میں ساری دنیا بھی آئے گی اور اس بربادی سے دنیا کا بچنا محال ہوجائے گا۔ اسرائیل یقینا ایک ناجائز مملکت ہے جسے طاقت کے زور پر اور عربوں کے خلاف سازش کے ذریعہ وجود میں لایا گیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو، فلسطینیوں کے تئیں اپنی عداوت کیلئے بدنام ہیں لیکن ان کی اتحادی جماعت تعصب و جانبداری اور نسل پرستی میں ان کے ریکارڈس توڑے جارہی ہے۔ اس طرح کی فسطائی ذہنیت رکھنے والوں میں اسرائیل کی مذہبی صیہونی پارٹی کے سربراہ ہزالیل اسمارٹ رچ سرفہرست ہیں۔ وہ اسرائیل کے نئے وزیر فینانس بھی ہیں۔ انہوں نے برسرعام خود کو ایک فاشسٹ تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں طنزیہ طور پر کہا ’’میں ایک دائیں بازو کا فرد ہوسکتا ہوں، ہم جنس پرستوں سے نفرت کرنے والا، نسل پرست اور فاشسٹ ہوسکتا ہوں لیکن میرے لفظ میری طاقت ہے اور یہی صحیح ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اسرائیل کو جمہوری اور یہودی دونوں نہیں ہونے چاہئے اور دوسری بات یہ ہے کہ ارض اسرائیل پراسرائیل کا پورا پورا حق ہے جس میں تاریخی فلسطین بھی شامل ہے اور تیسرے اسرائیل کو آزاد خیال مغرب کے طریقہ کار سے باخبر رہنا چاہئے اور خاص طور پر امریکی حکم و ہدایات کو مستردکیا جانا چاہئے۔ یہ اسرائیلی فاشسٹ طاقتیں بار بار یہی کہہ رہی ہیں کہ پچھلے صیہونی ایک یہودی مملکت قائم کرنے میں ناکام رہے حالانکہ انہیں تمام فلسطینی علاقوں کو اس میں شامل کرکے ایک یہودی مملکت بنانا چاہتے تھے۔ ان کا ایقان ہے کہ ان کے آباء و اجداد کو 1947-49ء میں لاکھوں فلسطینیوں کا تخلیہ کروانے کا حق حاصل رہا۔ 1980ء میں اسرائیلی فاشسٹوں کے گرو ربی میر کاہانے ‘They Must Go’ نامی کتاب میں فلسطینیوں کو کینسر کہتے ہوئے کہا تھا کہ یہودی ریاست میں فلسطینی کینسر کی طرح ہیں اور انہیں جیسے بھی ہو، نکال باہر کرنا چاہئے۔ موجودہ دور میں کاہانہ کے معتقدین جیسے وزیر قومی سلامتی اشمار بین ۔گیور کا بھی ماننا ہے کہ اسرائیل، فلسطینیوں کے بغیر بہتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلسطین دوسرے یا تیسرے درجہ کے شہری بن کر اور اپنے یہودی آقاؤں کے پوری طرح وفادار بن کر رہ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ خود بنجامن نیتن یاہو نے سال 2018ء میں ایک نسلی قانون منظور کروایا تھا جس کے ذریعہ اسرائیل کو یہودیوں کا ملک قرار دیا لیکن کاہانے کے معتقدین، بہبودیٔ مملکت میں یہودیوں کی بالا دستی و اجارہ داری پر زور دے رہے ہیں۔ اسرائیلی فورسیس کی درندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینی بچوں کو نشانہ بنارہا ہے، اس طرح وہ فلسطینیوں کی نسل تطہیر کا ارتکاب کررہا ہے۔ اس کے نشانے پر نوجوان لڑکے لڑکیاں ہیں جس کا مقصد فلسطینی آبادی کو بڑھنے سے روکنا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ فلسطینیوں کے بلند عزم و حوصلوں اور شوق شہادت نے اسرائیل کے عصری ہتھیاروں اور اس کی ٹیکنالوجی کو بالکلیہ ناکام کردیا ہے۔ اسرائیلی حکومت اور حکام اس بات کو لے کر فکرمند ہیں کہ فلسطینی مرنے سے نہیں ڈرتے، موت کو آگے بڑھ کر گلے لگاتے ہیں اور ان کا یہی جذبہ شہادت و شوق شہادت اسرائیل کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا رہا ہے، ورنہ دوسری قوم ہوتی تو کبھی کے اس کا وجود مٹ گیا ہوتا۔فلسطینی بچوں کے بارے میں اب ساری دنیا جانتی ہے کہ انہیں اسرائیلی مظالم کا مقابلہ کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ وہ کھلونوں سے نہیں کھیلتے بلکہ اسرائیلی درندہ صفت فورس کی برسائی ہوئی گولیوں سے کھیلتے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں مقبوضہ مغربی کنارہ کے جنین پناہ گزین کیمپ پر اسرائیل نے ایک بڑا حملہ کیا جسے 2002ء کے بعد اسرائیلی فوج کا سب سے بڑا حملہ کہا جارہا ہے۔ نتیجہ میں ام یوسف نامی بستی میں کوئی ایسا گھر نہیں جس میں سوراخیں نہ پڑیں ہوں، وہاں کے بچے پتھروں سے نہیں بلکہ گولیوں کے Casings سے کھیل رہے ہیں۔