فلسطینی بچوں پر بھی اسرائیلی ظلم، بیرونی دنیا بے حس

   

رمزی بعرود
موجودہ طور پر دنیا میں شاید کوئی خطہ ہوگا جہاں مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں جیسے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کررہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا عالمی طاقتوں کے دباؤ اور بعض مجبوریوں کی بناء فلسطینی علاقوں کی حقیقت ِ حال کی صحیح معنی میں رپورٹنگ نہیں کر پارہا ہے۔ بلاشبہ میانمار اور برصغیر کے بعض علاقوں میں بھی مسلمانوں کو متعصب قوتیں نشانہ بنارہی ہیں اور یہ حال سابق میں سویت یونین کے خطوں میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم، اب اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر عالمی طاقت کی تائید و حمایت سے قابض ہونے کے بعد سے جو ظالمانہ روش اختیار کی، اُس میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

حالیہ 29 جولائی کے بے رحمانہ واقعہ کو ہی لیجئے، جب 4 سالہ محمد ربیع کو بتایا جاتا ہے کہ مقبوضہ یروشلم میں اسرائیلی پولیس کی جانب سے تفتیش کیلئے طلب کیا گیا۔ یہ نیوز جو دراصل فلسطینی نیوز ایجنسی (WAFA) نے جاری کی، بعد میں اسرائیلی پولیس نے اس کی تردید کردی، جس سے شاید تعلقات عامہ پر لگی ضرب کی شدت کچھ کم ہوگی۔ تاہم، اسرائیلیوں نے اس واقعہ کی مکمل طور پر تردید بھی نہیں کی ہے، بلکہ یہ استدلال پیش کررہے ہیں کہ ربیع کم سن لڑکا نہیں ہے، اور اُس کے والد کو اپنے بیٹے کی حرکتوں کے تعلق سے پوچھ گچھ کیلئے یروشلم کی صلاح الدین اسٹریٹ میں واقع اسرائیلی پولیس اسٹیشن کو بلایا گیا تھا۔
محمد ربیع چار سالہ ہو کہ کچھ سال بڑا، لیکن اُس پر الزام پڑوسی علاقہ عیساویہ میں قابض اسرائیلی سپاہیوں پر ایک پتھر پھینکنے کا ہے۔ یہ علاقہ اسرائیلی تشدد کا مستقل ٹارگٹ رہا ہے۔ اسی علاقہ میں مکانات کے انہدام کی دردناک کارروائی بھی ہوئی، جو اس بہانے کے ساتھ کی گئی کہ فلسطینی باشندے وہاں پرمٹس (اجازت ناموں) کے بغیر تعمیرات کررہے ہیں۔ اسرائیلی یہ انکشاف نہیں کرتے کہ عیساویہ یا یروشلم میں کہیں بھی تعمیراتی سرگرمی کیلئے فلسطینی درخواستوں کی بڑی تعداد کو مسترد کردیا جاتا ہے، جبکہ یہودی نوآبادکاروں کو فلسطینی اراضی پر بلارکاوٹ تعمیرات کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ بات ملحوظ رکھیں تو عیساویہ میں اسرائیلی آرمی کا مضحکہ خیز اور غیرقانونی طرزعمل کچھ نیا نہیں ہے۔ 6 جولائی کو محصور پڑوسی علاقہ سے ایک ماں کو محض اس لئے گرفتار کیا گیا کہ اُس کے کم عمر بیٹے محمود عبید پر خودسپردگی کیلئے دباؤ ڈالا جاسکے۔ نیوز ویب سائٹ Mondoweiss نے یروشلم نشین ڈبلیو ایچ انفرمیشن سنٹر کے حوالے سے رپورٹ دی کہ اس ماں کو اسرائیلی پولیس نے عملاً بلیک میلنگ کیلئے حراست میں لیا۔
اسرائیلی حکام کا 4 سالہ لڑکے سے متعلق سارے معاملے کی وجہ سے الجھن میں پڑنا سمجھ میں آتا ہے، اسی لئے یہ معاملے کو کچھ اور رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے۔ تاہم، حقیقت ہے کہ یروشلم میں ’وافا‘ کے نمائندہ نے واقعی تصدیق کی کہ وارنٹ تو ربیع کے نام پر ہی جاری کیا گیا تھا، اُس کے والد کیلئے نہیں۔ نیوز کے بعض ذرائع اسرائیلی ڈپلومیسی کے جھانسے میں آگئے، جو ’فرضی خبر‘ کا واویلا مچاتے ہوئے حقائق کو چھپانے کیلئے شروع کردی جاتی ہے، لیکن یہ ضرور ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ربیع کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہوا ہے۔ فلسطینیوں کیلئے 1967ء میں اسرائیلی قبضے کے بعد سے بچوں کو محروس کرنا، مارنا پیٹنا اور قتل تک کردینے کی خبریں نہایت متواتر واقعات میں سے رہے ہیں۔
ربیع کو طلب کرنے کے محض ایک روز بعد اسرائیلی حکام نے عیساویہ کے ہی 6 سالہ قیص عبید کے والد سے بھی تفتیش کی کہ اُن کے بیٹے نے اسرائیلی فوجیوں پر ایک جوس کارٹن پھینکنا ہے! انٹرنیشنل مڈل ایسٹ میڈیا سنٹر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ عیساویہ کے مقامی ذرائع کے مطابق اسرائیلی ملٹری نے قیس کی فیملی کو سرکاری سمن کے ذریعے 31 جولائی کی صبح یروشلم میں تفتیشی مرکز کو طلب کیا۔ ایک فوٹو میں کم سن لڑکے کو کیمرہ کے رخ پر کھڑا کرکے ہاتھوں میں اسرائیلی ملٹری آرڈر (عبرانی زبان میں تحریر) تھما کر تصویرکشی کی گئی۔
ربیع اور قیس جیسے واقعات کوئی استثنائی معاملے نہیں بلکہ معمول بن چکے ہیں۔ قیدیوں کی وکالت کرنے والے گروپ Addameer کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں موجودہ طور پر کم و بیش 250 بچے ہیں، جبکہ لگ بھگ 700 فلسطینی بچے ہر سال اسرائیلی ملٹری کورٹ سسٹم سے گزارے جاتے ہیں۔ ان بچوں کے خلاف عائد سب سے مشترک الزام پتھراؤ ہے، ایسا جرم جس پر ملٹری قانون کے تحت 20 سال تک سزائے قید ہوسکتی ہے۔ دوسرے انتفاضہ (2000ء کی عوامی بغاوت) کی شروعات سے تقریباً 12,000 فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوج نے محروس کرتے ہوئے تفتیش کی ہے۔ لیکن صرف بچے اور اُن کے خاندان ہی نہیں جن کو اسرائیلی ملٹری نشانہ بناتی ہے، بلکہ اُن کی وکالت کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ 30 جولائی کو فلسطینی وکیل طارق برغوت کو کئی موقعوں پر اسرائیلی بسوں اور سکیورٹی فورسیس پر ’’فائر‘‘ کرنے کی پاداش میں اسرائیلی ملٹری کورٹ نے 13 سالہ سزائے قید پر جیل میں ڈال دیا۔ ایک معروف وکیل پر یہ کیسا مضحکہ خیز اور ڈرامائی الزام ہے کہ انھوں نے ’بسوں‘ پر فائرنگ کی ہے، یہ بات اہم ہے کہ طارق عدالت میں کئی فلسطینی بچوں کے کامیاب دفاع کیلئے جانے جاتے ہیں۔ طارق کم عمر فلسطینی لڑکے احمد مناصرہ کا طاقتور دفاع کرتے ہوئے پر اسرائیلی ملٹری کورٹ سسٹم کیلئے مستقل سردرد بن گئے تھے۔
مناصرہ جو تب 13 سال کا تھا، اس پر دو اسرائیلیوں کو مقبوضہ یروشلم کی ایک غیرقانونی یہودی بستی کے قریب مبینہ طور پر دو اسرائیلیوں کو چاقوزنی کے ذریعے زخمی کردینے پر اسرائیلی ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلاتے ہوئے ملزم قرار دیا گیا۔ مناصرہ کے کزن 15 سالہ حسن کو برسرموقع قتل کردیا گیا، جبکہ زخمی مناصرہ کو بالغ فرد کے طور پر عدالت میں مقدمہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس موقع پر وکیل طارق نے اسرائیلی کارروائی کے جواز کو چیلنج کیا اور اسرائیلی کورٹ پر کھلم کھلا الزام لگایا کہ زخمی لڑکے کو اُس کے ہاسپٹل بیڈ سے باندھ کر سخت تفتیش کرتے ہوئے خفیہ طور پر فلمبندی بھی کی گئی۔

اسرائیل نے 2 اگست 2016ء کو ایک قانون منظور کیا جو حکام کو ایسے نابالغ فرد کو بھی جیل میں ڈالنے کی اجازت دیتا ہے جو سنگین جرائم جیسے قتل، اقدام قتل یا مردم کشی کا مرتکب پایا جائے چاہے وہ 14 سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی کیوں نہ ہو۔ اس قانون کو آسانی سے لاگو کرلیا گیا تاکہ احمد مناصرہ جیسے کیسوں سے نمٹا جاسکے، جسے اس قانون کی منظوری کے تین ماہ بعد 7 نومبر 2016ء کو 12 سال کی سزائے قید سنائی گئی۔
مناصرہ کا کیس، اسرائیلی تفتیش کاروں کی جانب سے اس کو گالی گلوج و بدسلوکی کا نشانہ بنانے والے ویڈیو کلپس کے افشاء اور اُس کو سنائی گئی سخت سزا … ان سب باتوں نے اسرائیلی ملٹری کورٹ سسٹم میں فلسطینی بچوں کی زبوں حالی پر مزید بین الاقوامی توجہ مرکوز کی ہے۔ ڈیفنس فار چلڈرن۔ فلسطین سے وابستہ اٹارنی اور انٹرنیشنل ایڈوکیسی آفیسر براڈ پارکر نے کہا کہ اسرائیلی تفتیش کاروں کو مغلظات بکنے، دباؤ ڈالنے اور دھمکانے کی چالوں پر انحصار کرتے دیکھا گیا ہے، جس کا ظاہر طور پر مقصد یہی ہے کہ بچوں کو ذہنی کرب میں مبتلا کرتے ہوئے اقبال جرم کرایا جائے۔ اقوام متحدہ کنونشن برائے حقوق اطفال جس کا بلحاظ 1991ء اسرائیل دستخط کنندہ ہے، ٹارچر اور دیگر ظالمانہ، غیرانسانی یا ہتک آمیز سلوک یا سزا کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ پھر بھی اسرائیلی ملٹری اور پولیس کے زیرحراست فلسطینی بچوں سے غلط برتاؤ اور ان کو زدوکوبی عام اور منظم ہے۔ درحقیقت، اس قدر منظم ہیں کہ کم عمر فلسطینی بچوں کو گرفتار کرنے کی ویڈیوز اور رپورٹس فلسطین اور فلسطینی حقوق سے متعلق سوشل میڈیا کا حصہ بن گئے ہیں۔
افسوسناک حقیقت ہے کہ 4 سالہ ربیع اور 6 سالہ قیس اور اُن جیسے کئی بچے سارے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی سپاہیوں اور یہودی نوآبادکاروں کا ٹارگٹ بن گئے ہیں۔ اس ہولناک حقیقت کو انٹرنیشنل کمیونٹی ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہئے۔ فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کو ضرور مؤثر طور پر چیلنج کرنا چاہئے کیونکہ اسرائیل، اس کے غیرانسانی قوانین اور بے رحم فوجی عدالتوں کو فلسطینی بچوں پر اپنا بلاروک ٹوک بے رحمانہ ظلم جاری رکھنے کی اجازت ہرگز نہیں دینا چاہئے۔٭