نیویارک : امریکی سپریم کورٹ نے منگل کو ایک مقدمے میں دلائل سنے کہ آیا اسرائیل اور مغربی کنارے میں حملوں کے امریکی متاثرین امریکی عدالتوں میں فلسطینی حکام کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔طویل عرصے سے جاری مقدمے میں فلسطینی اتھارٹی (پی اے) اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے امریکی وفاقی عدالتوں کا دائرہ اختیار شامل ہے۔اسرائیل یا مغربی کنارے میں حملوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والے امریکیوں یا ان کے رشتہ داروں نے ہرجانے کے لیے متعدد مقدمات دائر کیے ہیں۔ایک مقدمے میں 2015 میں ایک جیوری نے ان حملوں کے امریکی مت?ثرین کو 654 ملین ڈالر کا انعام دیا جو 2000 کے عشرے کے اوائل میں ہوئے۔اپیل کورٹس نے دائر? اختیار کی بنیادوں پر مقدمہ خارج کر دیا۔کانگریس نے 2019 میں دہشت گردی کے متاثرین کے لیے تحفظ اور انصاف کو فروغ دینے کا ایک ایکٹ منظور کیا جس کے تحت اگر پی ایل او اور پی اے امریکیوں کو ہلاک یا زخمی کرنے والے افراد کے لواحقین کو ادائیگی کریں تو وہ امریکی دائرۂ اختیار کے تابع ہو جائیں گی۔دو ماتحت عدالتوں نے فیصلہ دیا کہ 2019 کا قانون فلسطینی حکام کے قانونی حقوق کی خلاف ورزی تھا لیکن کنزرویٹوز کی اکثریت والی سپریم کورٹ کے ججز کی اکثریت منگل کو اسے برقرار رکھنے پر مائل نظر آئی۔جسٹس بریٹ کیوانوف نے کہاکہجب ہم امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں بات کرتے ہیں تو کانگریس اور صدر ہی انصاف پسندانہ فیصلے کرتے ہیں۔”ٹرمپ انتظامیہ کی نمائندگی کرنے والے ڈپٹی سالیسٹر جنرل ایڈون نیڈلر نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہعدالتوں کو خود کو کانگریس یا صدر کا متبادل نہیں بنانا چاہیے۔نیڈلر نے کہاکہکانگریس اور صدر نے ایک فیصلہ دیا جو عملی طور پر مکمل احترام کا حقدار ہے کہ پی ایل او اور پی اے کو دائرۂ اختیار میں رکھنا مناسب ہے۔ اس مقدمے میں مدعا علیہان کے پاس موقع تھا کہ صرف ان سرگرمیوں کو روک کر اس سے بچ سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔”پی ایل او اور پی اے کی نمائندگی کرنے والے مچل برجر نے کہا کہ دائرۂ اختیار تفویض کرنا کانگریس کی تجویز کردہ معاملات سے بالاتر ہے۔توقع ہے کہ سپریم کورٹ جون میں اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے اس سلسلے میں ایک فیصلہ جاری کر دے گی۔