فلسطینی ریاست کے بغیر سعودیہ ۔اسرائیل تعلقات معمول پر نہیں آسکتے

   

سعودی انٹیلجنس کے سابق سربراہ ترکی الفیصل کا انتباہ ۔ امارات کا بھی فلسطینی ریاست کے بغیر کسی بھی منصوبہ کی حمایت نہ کرنے کا اعلان

ریاض : سعودی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے انتباہ کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات تب تک معمول پر نہیں آ سکیں گے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آ جاتا۔عرب نیوز کے مطابق لندن کے ایک تھنک ٹینک چتھم ہاؤس میں ایک گفتگو کے دوران، امریکہ میں سابق سعودی سفیر نے غزہ جنگ کے پرامن عمل میں واشنگٹن کے کردار پر بھی بات کی، اور یہ بھی کہ کس طرح جنگ شروع ہونے سے پہلے کی بات چیت بڑے پیمانے پر مثبت رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان علاقائی سلامتی کو مضبوط بنانے اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کے لیے مذاکرات کی بحالی کا خواہشمند ہے لیکن ریاض کا مؤقف یہ ہے کہ ’اگر وہاں ایک فلسطینی ریاست ہے جس کے وجود میں آنے کو اسرائیل قبول کرتا ہے، تو پھر ہم اسرائیل کے ساتھ (تعلقات کو) معمول پر لانے کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔‘شہزادہ ترکی الفیصل کا کہنا تھا کہ ’7 اکتوبر سے پہلے بات چیت نہ صرف ان خطوط پر آگے بڑھی بلکہ مملکت نے ایک فلسطینی وفد کو بھی مدعو کیا کہ وہ آ کر امریکیوں سے براہ راست بات کرے کہ فلسطینی ریاست کی تشکیل کیسے ہو سکتی ہے۔‘’میں ان مذاکرات سے واقف نہیں ہوں اس لیے میں نہیں جانتا کہ فلسطینیوں اور امریکیوں کے درمیان کیا ہوا، لیکن مملکت کا مؤقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ہم فلسطینیوں کے لیے بات نہیں کریں گے۔ انہیں خود ہی (بات) کرنی ہو گی۔ بدقسمتی سے، سات اکتوبر (اسرائیل کے خلاف حماس کے حملے) نے ان مذاکرات کو ختم کر دیا۔‘انہوں نے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام نہ صرف سعودی عرب بلکہ باقی مسلم دنیا کے ساتھ بھی اسرائیل کے تعلقات کے لیے اہم ہے۔سابق سعودی انٹیلیجنس سربراہ کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے فلسطینی ریاست بنیادی شرط ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے پوری حکومت کہہ رہی ہے کہ کوئی فلسطینی ریاست نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی نظر میں ایک آزاد فلسطین 1967 والی سرحدوں بشمول مشرقی یروشلم کو مضبوط کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے 1981 کے شاہ فہد امن منصوبے اور شاہ عبداللہ کی طرف سے تجویز کردہ 2002 کے عرب امن اقدام کے ذریعے تنازع کے پْرامن حل کے لیے کوششوں کی راہنمائی کی ہے۔شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ غزہ جنگ کے دوران ’مملکت نے مسلم دنیا کی قیادت کی، اور نہ صرف عربوں کے ساتھ بلکہ (باقی) مسلم دنیا کے ساتھ سربراہی اجلاس کیے، اور سعودی وزیر خارجہ کی سربراہی میں سفارتی مشنز بنے تاکہ دنیا کو باور کرایا جا سکے کہ لڑائی کا خاتمہ ضروری ہے۔‘دوسری طرف وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر غزہ میں جنگ کے بعد کسی منصوبے کی حمایت کے لیے تیار نہیں۔عرب نیوز کے مطابق ایکس پر ایک بیان میں وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان نے کہا کہ ’متحدہ عرب امارات فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر غزہ میں جنگ کے اگلے ایک دن کی حمایت کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔‘ایک اماراتی سفارتی مشیر اور سابق وزیر مملکت انور قرقاش نے کہا ہے کہ شیخ عبداللہ کے بیان نے واضح کر دیا ہے کہ متحدہ عرب امارات فلسطین اور اسرائیل کے لیے دو ریاستی حل کے علاوہ کسی بھی چیز کو مسترد کرتا ہے۔