امجد خان
اگر آپ آج عالمی نقشہ میں فلسطین کو تلاش کریں گے تو تلاش کرتے رہ جائیں گے لیکن آپ کو عالمی نقشہ میں فلسطین نام کا کوئی ملک کوئی علاقہ دکھائی نہیں دے گا ۔ عالمی نقشہ کو مٹانے کیلئے اور عربوں کے سینے میں اسرائیل کی شکل میں خنجر گھونپنے کی سازش تیار کی گئی اور اس سازش پر 1880 سے عمل درامد شروع کیا گیا اور پھر 1948 میں اس اسلام دشمن سازش کو پوری طرح عملی جامہ پہنایا گیا اور اسی سازش کے تحت سرزمین مقدس فلسطین میں سامراجی طاقتوں بالخصوص برطانیہ ، امریکہ اور ان کے حلیف ملکوں نے دنیا کے مختلف مقامات سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانا شروع کردیا اور پھر دنیا نے بڑی بے بسی بے حسی اور بے شرمی کے ساتھ دیکھا کہ صیہونی عزائم کو پورا کیا گیا، اس کیلئے یہودیوں نے خود کو مظلوم ظاہر کیا ۔ اس کیلئے Lobeying کی اور مذہب کی دہائی دی گئی ۔ ہود پر مبنی اقتصادی نظام کو پھیلاکر دنیا کی معیشت پر کنٹرول حاصل کیا اور مشرق وسطی میں ظلم و جبر کی تخم ریزی کی جس کے نتیجہ میں قابض اسرائیل فلسطینیوں کا مسلسل قتل عام کر رہا ہے ۔ ان کی نسل کشی کر رہا ہے اور ان کی نسلی تطہیر میں مصروف ہے ۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 58 ہزار سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے جبکہ ایک لاکھ چالیس ہزار فلسطینی زخمی ہوئے جن میں اکثر مستقل طور پر معذور ہوگئے ہیں ۔ ہر روز غزہ سے دردناک داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں، یسی داستانیں جن پر صرف انسان ہی آنسو بہاتے ہیں ۔ غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہیں۔ انسانوں کے بھیس میں دندناتے پھر رہے درندوں کو فلسطینیوں کے درد و الم کا کوئی احساس ہی نہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیل خود ساحتہ و نام نہاد بڑی طاقتوں خاص کر برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں یہ سب کچھ کر رہا ہے جس کا اندازہ فلسطینی علاقوں پر یہودی آبادکاروں کی نئی بستیوں کی تعمیر اور عالمی برادری کی بے حسی سے لگایا جاسکتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں کی چالاکیوں اور مکاریوں سے تنگ آکر یوروپی ملکوں سے یہودیوں کو نکالا گیا اور فلسطینی علاقوں میں لاکر بسایا گیا ، اس کے لئے روس میں یہودیوں کے قتل عام 1903 کی کشیف قتل عام ، 1894 تا 1906 تک چلے ڈریفوس معاملہ اور پھر 1945 ۔ 1933 پیش آئے ہولو کاسٹ میں 60 لاکھ یہودی قتل کئے گئے ۔ (ایسا دعویٰ کیا جاتا ہے) 1947 تک فلسطین میں 1-4 لاکھ یہودیوں کو بسادیا گیا ۔ 1948 کے بعد عرب ملکوں سے 8 لاکھ مزرامی یہودی نقل مکانی کرتے ہوئے فلسطین میں آکر بس گئے ۔ اس طرح سرزمین فلسطین پر یہودیوں کی آبادی میں مسلسل ا ضافہ ہوتا گیا بلکہ ایک منصوبہ ہند سازش کے تحت اضافہ کرایا گیا ۔ تھیوڈر ہرزل ڈیر جوڈینس ٹاٹ (1897) نے صیہونیت کو باقاعدہ شکل دی جس میں یہودیوں کیلئے اور انہیں ظلم و ستم سے بچانے کی خاطر ایک یہودی ملک کا تصور پیش کیا گیا ۔ کچھ گروہوں نے بائبل کے دعوؤں کو بنیاد بناکر عظیم تر اسرائیل یا گریٹر اسرائیل کے نظریہ کو فروغ دیا، اس نظر یہ کے تحت گریٹر اسرائیل دریائے نیل سے دریائے فرات تک پھیلا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر محمد اقبال صدیقی نے ریڈینس ویکلی میں شائع اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ مورخ ایلان پایے اپنی کتاب The Ethnic Cleansing of Palastine میں ’’ایک ایسی زمین جو بناء لوگوں کے ہو ایسے لوگوں کیلئے جو بغیر زمین کے ہو‘‘ جیسے نعرہ پر تنقید کی ہے ۔ یہ نعرہ فلسطین کے متحرک معاشرہ کو مٹانے کا سبب بنا، جس سے فلسطینیوں کی اپنی ہی سرزمین اور اپنے ہی گھروں سے بے دخلی کی راہ ہموار ہوئی۔
واضح رہے کہ 1882 اور 1903 کے درمیان یہودیوں نے پہلے مرحلہ کے تحت مختلف ملکوں سے نقل مکانی کرتے ہوئے فلسطین میں سکونت اختیار کی۔ فلسطین کو یہودیوں کی دوسری نقل مکانی 1904 میں شروع ہوکر 1914 میں ختم ہوئی ۔ اس نقل مکانی کو یہودی عالیہ کہتے ہیں ۔ عالیہ مہم کے تحت 65 ہزار یہودی آبادکاروں کو فلسطینی علاقوں میں بسایا گیا اور اس میں یوروپی حکومتوں اور صیہونی تنظیموں کا اہم کردار رہا جس میں Jewish Fund قابل ذکر ہے ۔ ان یہودی تنظیموں نے دوسرے ملکوں سے فلسطینیوں کو لاکر آباد کرنے کی پشت پناہی کی۔ یہودیوں نے قانون عثمانی کے تحت زمین کی خریداری کی جیسے کہ Sursock Estates اس کے نتیجہ میں فلسطینی کسان زمینات سے بے دخل ہوئے اور فلسطین کی دیہی معیشت متاثر ہوئیں۔ اگرچہ یہ لین دین قانونی تھا لیکن اس قانون نے ان ہزاروں فلسطینیوں کو بیدخل کردیا جن کی زندگیوں کا انحصار کھیت کھلیانوں پر تھا اور پھر ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب یہودیوں کو فلسطینی علاقوں میں بسانے کیلئے 1948 میں 7 لاکھ فلسطینیوں کو ارض مقدس فلسطین سے نکال دیا گیا اور اس دن کو آج بھی فلسطینی یوم نکبہ کے طورپر مناتے ہیں۔ 1948 میں لاکھوں فلسطینوں کی بیدخلی کے دوران بھی فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا اور 15 تا 18 ہزار فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ۔ فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین سے نکالنے اور یہودیوں کو وہاں بسانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ مغربی کنارہ میں یہودی بستیوں کو بسانے کیلئے سال 2000 سے 2025 تک 1.5 لاکھ فلسطینوں کو بے گھر کردیا گیا ۔ اس طرح اسرائیلی آبادی 7.5 ملین تک پہنچ گئی جن میں سے 30 لاکھ یہودیوں کو فلسطینی آبادیوں پر طاقت کے زور پر بسایا گیا بستیوں میں مقیم ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو فلسطینیوں کے خلاف ظلم و جبر میں مغربی ممالک اور امریکہ اسرائیل کی پوری پوری مدد کر رہا ہے۔ اسرائیل کیلئے امریکی تائید و حمایت بہت اہم ہے۔ اعلان بالفور برطانوی حکومت کی یہودیوں سے خفیہ معاہدہ کی توثیق تھی جس کا تعلق پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے تھا۔ بالفور اعلان دور ٹرو مین 1946 پناہ گزین پالیسی جس کے نتیجہ میں یو این پارٹیشن پلان کو ایک شکل ملی ، کے ذریعہ 2025 تک اسرائیل کو 260 ارب ڈالرس کی امداد کا یہودی آبادی کو بسانے میں غیر معمولی کردار رہا ۔ حد تو یہ ہے کہ بڑی بے شرمی کے ساتھ ڈونالڈ ٹرمپ نے بحیثیت صدر اپنی پہلی میعاد کے دوران مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا نہ صرف دارالحکومت تسلیم کیا بلکہ امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے مشرق یروشلم منتقل کردیا ۔ دوسری طرف 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی ان کی نسلی تطہیر اور قتل عام کرتا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ فلسطینی شہداء کی قبروں پر بمباری کرتے ہوئے شہداء کی بے حرمتی کے سنگین جرم کا ارتکاب بھی کر رہا ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کی تائید و حمایت سے ہورہا ہے۔
امریکی اتحادی بھی اسرائیلی درندگی سے بدظن
اسرائیل کی درندگی پر اب ایسا لگتا ہے کہ خود امریکہ اور اسرائیل کے حلیف ممالک اُٹھ کھڑے ہورہے ہیں، جس کی تازہ ترین مثال فرانس ہے۔ فرانس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ ستمبر میں ریاست فلسطین کو تسلیم کرلے گا ۔ اسی دوران امریکی ڈاکٹروں اور سابق فوجی عہدیداروں نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ فاقہ کشی کا شکار فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور اُن کے ناقابل برادشت مظالم کو دیکھتے ہوئے اُس کی تائید و حمایت ختم کردے ۔ ان ڈاکٹروں اور سابق فوجی عہدیداروں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے امریکی کیپٹل کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اور امریکی کانگریس کو امریکیوں کی آواز کی سماعت کرنی ہوگا اور اسرائیلی مظالم کی مخالفت کرنی ہوگی ۔
الجزیرہ کے مطابق یو ایس کیپٹل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے Josephine Guilbeau نے انتہائی برہمی کے انداز میں غزہ کی حالت زار کے بارے میں کہا کہ غزہ میں اسرائیل نے فاقہ کشی کا خطرناک ماحول پیدا کیا ہے ( یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ غزہ میں فاقہ کشی کاشکار ہوکر شہید ہونے والوں کی تعداد 122 ہوگئی ہے جن میں 83 بچے شامل ہیں)۔
جوزفائن کے مطابق غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہاں درندگی کی تمام حدود پار کی جاچکی ہیں ، حد تو یہ ہے کہ وہاں اسرائیل کا ظلم و ستم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ نومولودوں کو بھی اس جنگ میں جھونکا جارہا ہے ۔ اُنھیں اور اُن کی ماؤں کو غذا سے محروم رکھتے ہوئے موت کے منہ میں ڈھکیلا جارہا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی سوال کیاکہ آخر ہم انسانیت کے کس درجہ پر آگئے ہیں ۔ انسانیت گرگئی ہے ، واضح رہیکہ جوزفائن امریکی فوج میں خدمات انجام دے چکی ہیں۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جوزفائن اپنے ساتھی سابق فوجیوں ، ڈاکٹروں ، سابق عہدیداروں اور کانگریس کی رکن راشدہ طالب کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوئیں جنھوں نے امریکی قانون سازوں اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر زور دیاکہ وہ امریکی عوامی کی سنیں اور اسرائیل کی غیرمشروط تائید و حمایت کاسلسلہ بند کردیں۔ مظاہرین نے یو ایس کیپٹل کے باہر فاقہ کشی کا شکار فلسطینی بچوں کی تصاویر تھامے اسرائیل کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد ، اسلحہ کی فراہمی اور سفارتی تائید و حمایت روکنے کا مطالبہ کیا۔ راشدہ طالب نے اپنے ساتھی کانگریس ارکان سے درخواست کی کہ وہ اسرائیلی مظالم کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہوجائیں ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اے امریکی کانگریس میں خدمت انجام دینے والو جاگو ! کیونکہ امریکی عوام آپ سے بار بار کہہ رہے ہیں ہم اسرائیلی مظالم کی تائید نہیں کرتے ۔
واضح رہے کہ امریکہ نہ صرف فلسطینیوں کے قتل عام اُن کی نسل کشی اور نسلی تطہیر میں اسرائیل کی تائید و حمایت کررہا ہے بلکہ اُس کی امداد کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ جنگ بندی کو یقینی بنانے کی بجائے ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل حماس کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جو یقینا انسانی اقدار کی سنگین پامالی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس بارے میں کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارٹی نے غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دینے سے انکار پر کہا کہ اسرائیل عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کررہا ہے ۔
الجزیرہ کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانول مائیکرون کے مطابق اُن کا ملک اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ماہ ستمبر کے دوران فلسطین کو باقاعدہ تسلیم کرے گا ۔ آپ کو بتادیں کہ 7 اکٹوبر 2023 ء کو اسرائیل فلسطین جنگ کا آغاز ہوا جس میں اسرائیل کے زمینی و فضائی حملوں میں کم از کم 60 ہزار فلسطینی شہید اور 1,43,965 زخمی ہوئے ہیں ۔ شہداء اور زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے ۔