نئی دہلی ۔25؍ستمبر ( ایجنسیز)سونیا گاندھی نے فلسطین پر خاموشی کو انسانی اقدار سے دستبرداری قرار دیتے ہوئے مودی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ فلسطین کیلئے قیادت کو مظاہرہ کرنا چاہئے لیکن اس کی پالیسی ذاتی دوستی پر مبنی ہے۔ ہندوستان کی خاموشی اور فلسطین سے دوری پر سونیا گاندھی نے ایک سخت تنقیدی مضمون تحریر کیا ہے جو دی ہندو اخبار میں شائع ہوا ہے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے مودی حکومت کے فلسطین کے مسئلے پر رویہ کو گہری خاموشی اور انسانیت اور اخلاق سے دستبرداری قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ ہندوستان کو فلسطین کے لیے قیادت کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو اب انصاف، شناخت، وقار اور انسانی حقوق کی جنگ بن چکا ہے۔سونیا گاندھی نے اپنے مضمون میں کہا کہ ہندوستان کی عالمی سطح پر حیثیت ایک فرد کی ذاتی عزت افزائی یا تاریخی کارناموں پر منحصر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور آسٹریلیا کا حوالہ دیا جنہوں نے حال ہی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جو فلسطین کے طویل عرصے سے پریشان عوام کی جائز خواہشوں کی تکمیل کا پہلا قدم ہے۔سونیا گاندھی نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے 193 میں سے 150 سے زائد ممالک نے اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ ہندوستان نے 18 نومبر 1988 کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا جبکہ وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی حمایت کرتا رہا ہے۔انہوں نے تاریخی مثالیں بھی پیش کیںجیسے کہ ہندوستان نے آزادی سے قبل جنوبی افریقہ میں ایپارٹائڈ کے خلاف آواز اٹھائی اور 1954-62 میں الجیریا کی آزادی کی جدوجہد میں سب سے مضبوط حمایت کی۔ 1971 میں ہندوستان نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں نسل کشی روکنے کیلئے مؤثر کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل۔فلسطین کے حساس مسئلے پر بھی ہندوستان نے طویل عرصے سے امن اور انسانی حقوق کے تحفظ پر مبنی اصولوں کی پابندی کی ہے۔تاہم گاندھی نے مودی حکومت پر تنقید کی کہ وہ اس مسئلے پر خاموش رہ کر اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیلی شہریوں پر وحشیانہ حملوں کے بعد اسرائیل کا ردعمل نسل کشی کے مترادف رہا ہے۔سونیا گاندھی نے کہا کہ کئی ممالک کی جانب سے فلسطین کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ خوش آئند اور طویل انتظار کے بعد کا اقدام ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خاموشی غیر جانبداری نہیں بلکہ ذمہ داری سے گریز ہے۔