رام پنیانی
فرقہ وارانہ و نسلی قوم پرستی کا سب سے بڑا ہتھیار، غلط فہمیاں اور غلط تصورات پھیلانا ہے۔ ساتھ ہی اقلیتوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ طویل عرصہ سے جاری اس ناپسندیدہ عمل کو اب ایک نیا آلہ فلم ’’ دی کشمیر فائیلس‘‘ کی شکل میں مل گیا ہے۔ یہ فلم چونکہ اقلیتوں کے خلاف اس قسم کی غلط فہمیوں ،آدھے سچ، چنندہ سچائی اور دروغ گوئی پر مبنی ہے، اس لئے فلم کے نتیجہ میں فرقہ پرستی کی اشکال میں ایک اور اضافہ ہوا ہے۔ جن سنیما گھروں میں فلم ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ کی نمائش کی جارہی ہے، وہاں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نعرے بلند کئے جارہے ہیں۔ اس فلم کے نتیجہ میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف غلط فہمیاں مختلف مراحل سے گذر رہی ہیں اور ان سب کی شروعات فرقہ وارانہ تاریخ نویسی سے ہوا ۔
اس فرقہ وارانہ نوعیت کی تاریخ نو میں مسلم بادشاہوں کو ہندوؤں پر مظالم ڈھانے انہیں اذیت دینے والوں، ہندو مندروں کو تباہ کرنے والوں اور ایک طویل عرصہ تک طاقت کے زور پر اسلام مسلط کرنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایسی تاریخ پیش کی گئی جس کے ذریعہ ہندوؤں میں یہ خوف پیدا کیا گیا کہ ہندو بہت جلد اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے کیونکہ مسلمانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمان بڑی تیزی سے اپنی آبادی میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ امریکی میڈیا کی جانب سے گھڑی گئی ، مسلم دہشت گردی کو اکثریتی پروپگنڈہ میں شامل کرلیا گیا۔ اس کا نتیجہ مسلمانوں کے تئیں شدید نفرت کی شکل میں برآمد ہوا۔ مسلم نوجوانوں کو لو جہاد کے نام پر حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ہجومی تشدد کے ذریعہ ان کی زندگیوں کا خاتمہ کیا گیا۔ اس میں اس وقت مزید شدت پیدا ہوگئی جب دھرم سنسدوں میں ہندو مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں کا قتل عام کرنے کیلئے ہندوؤں پر زور دیا جس پر ہمارے وزیراعظم نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی۔ دھرم سنسدوں سے مسلمانوں کے قتل عام کی کال پر انہوں نے مذمت تو دور ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ اب اس فلم ’’کشمیر فائیلس ( کے ایف) نے 1990ء میں وادی سے کشمیری پنڈتوں کا نقل مکانی کی کشمیری مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرایا۔ ساتھ ہی نیشنل کانفرنس اور کانگریس جیسی سیاسی جماعتوں کو بھی اس کیلئے ذمہ دار قرار دیا گیا۔ ’’کشمیر فائیلس‘‘ میں کشمیری پنڈتوں کے چنندہ قتل کے واقعات پیش کئے گئے اور اس ضمن میں اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کی خاطر جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔ایک منظر کرفیو کا دکھایا گیا اور کرفیو کے دوران اسکول کی طالبات کو اسکول یونیفارم میں دکھایا گیا۔ کرفیو میں کیا اسکول کھلے رہتے ہیں۔ اس جھوٹ و دروغ کے بارے میں آنجہانی اسکواڈرن لیڈر روی کھنہ کی بیوہ نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے۔ ان کے خیال میں ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ میں کئی چھوٹی چیزیں دکھائی گئی ہیں۔
کشمیر دراصل کشمیریت کی سرزمین ہے (ویدانت، بدھ ازم اور صوفیانہ روایات کا مرکب) (نورالدین نورانی المعروف نندرشی اور لعل دید کی سرزمین) کو بیگانگی اور انتہا پسندی کے درد میں مبتلا کردیا گیا۔ ایک طرح سے وادی کشمیر کی سرزمین کو درد و الم میں پھنسا دیا گیا۔ اس انتہا پسندی نے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی جانیں لی۔ ہندوستان کی آزادی کے فوری بعد کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا۔ محمد علی جناح چاہتے تھے کہ کشمیر پاکستان میں ضم ہوجائے کیونکہ وہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ وہاں جن قبائل کو بھیجا گیا۔ ان کے پیچھے پاکستانی فوج کی حمایت تھی۔ اس جارحیت کے پیش نظر ہری سنگھ کے نمائندہ اور صدر نیشنل کانفرنس شیخ عبداللہ حکومت ہند سے رجوع ہوکر پاکستانی جارجیت کا انسداد کرنے ہندوستانی فوج روانہ کرنے کی درخواست کی جس پر حکومت ہند نے اپنی فوج کشمیر بھیجنے سے اتفاق کیا اور یہ معاہدہ طئے پایا کہ کشمیر مکمل خود اختیاری کے ساتھ ہندوستان سے الحاق کرے گا۔ اس کیلئے دستور کی دفعہ 370 کے ذریعہ کشمیر کو خصوصی موقف عطا کیا گیا جس کے ذریعہ کشمیر اسمبلی کو سوائے دفاعی مواصلاتی، کرنسی اور اُمور خارجہ کے تمام اختیارات تفویض کئے گئے۔ ہندوستانی فوج نے پاکستانی فوج کی پیش قدمی روک دی لیکن تب تک کشمیر کے ایک تہائی حصہ پر پاکستان قابض ہوگیا۔ جب یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پہنچا۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے نے یہ فیصلہ دیا کہ کشمیر میں استصواب عامہ کروایا جائے اور یہ امکانات اس سے جانیں کہ کشمیر آزاد رہ سکتا ہے یا ہندوستان یا پھر پاکستان میں ضم ہوسکتا ہے اور ایک اہم بات یہ تھی کہ استصواب عامہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوگا۔ اس کیلئے شرط یہ تھی کہ پاکستان اپنی جارحیت کو خالی کردے گا اور ہندوستان ، علاقہ میں اپنی فوجی موجودگی میں تخفیف کرے گا لیکن پاکستان نے جارحیت والے علاقہ کو خالی نہیں کیا۔ اس طرح استصواب عامہ نہ ہوسکا۔
شیخ عبداللہ ، گاندھی اور نہرو سے بہت متاثر تھے اور وہ دونوں شخصیتوں کو سکیولرازم کے ’’ستارے تصور‘‘ کرتے تھے، لیکن ناتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں گاندھی کے قتل اور کشمیر کے زبردستی ہندوستان میں انضمام سے متعلق شیام پرساد مکرجی کے اصرار پر شیخ عبداللہ دہل کر رہ گئے اور انہوں نے انضمام سے متعلق ازسرنو غور شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں گرفتار کرکے 17 برسوں تک قید میں رکھا گیا جس کے ساتھ ہی کشمیر میں بیگانگی کا عمل شروع ہوگیا۔ 1965ء میں جب خود مختاری کو کچلا گیا تب بیگانگی کے عمل میں شدت پیدا ہوئی۔ ہوا یہ کہ کشمیری وزیراعظم کے درجہ کو گھٹاکر چیف منسٹر کردیا گیا اور صدر ریاست کے عہدہ کو گورنر کے عہدہ سے تبدیل کردیا گیا۔ان خیالات میں ایسے نوجوان جن میں بیگانگی کا احساس پیدا ہوگیا تھا، اپنے احتجاج میں شدت پیدا کردی۔ جس کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا اور ان نوجوانوں کو پاکستان نے ہتھیار سربراہ ابتداء کشمیری نوجوانوں نے کشمیریت کی بنیاد پر احتجاج کئے جبکہ پاکستان میں ضیاء الحق اسلامیانے کا نعرہ لگارہے تھے اور انتہا پسندی نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اس وقت القاعدہ، طالبان کو روس کے خلاف اٹھانے کیلئے یہ امریکی پراجیکٹ تھا۔ اس طرح عسکریت پسندوں کا اثرورسوخ اس علاقہ میں بڑھنے لگا۔
1990ء کے اواخر میں انتہا پسندوں نے اپنی پٹری کشمیر سے بدل کر ہند دشمن اور ہند دشمن میں تبدیل کرلی جبکہ اسٹابلشمنٹ اقتدار مختلف ہاتھوں میں سونپتا رہا۔ دوسری طرف روزگار نہ ملنے اور معاشی ترقی نہ ہونے کے باعث بھی نوجوانوں میں مایوسی بڑھ گئی پھر مقبول بٹ کو پھانسی دیئے جانے کے بعد کشمیر کے بے شمار نوجوان دہشت گردی کی تربیت حاصل کرنے پاکستان کیلئے روانہ ہوئے پر اس دوران جے کے ایل ایف کشمیریت اور آزادی کی بات کرتا رہا جس کے ساتھ ہی حزب المجاہدین بتدریج اپنا اثر بڑھاتی رہی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی دختر روبینہ سعید کا اغوا کیا گیا۔ نتیجہ میں وی پی سنگھ حکومت نے کئی خطرناک دہشت گردوں کو رہا کیا جس کے باعث صورتحال ابتر ہوگئی۔ مقبول بٹ کو موت کی سزا بنانے والے جج نیل کانت گنجو، بی جے پی لیڈر تکالال ٹخلو صحافی پریم ناتھ بٹ کا انتہائی بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا پھر عسکریت پسندوں نے اپنی بندوقوں کا رخ پنڈتوں کی سمت کردیا۔ انہیں دھمکیاں دینی شروع کی۔ ان سے وادی چھوڑنے کیلئے کیا گیا۔ اس ضمن میں کتابچے تقسیم کئے گئے جسے دیکھ کر پنڈت خوف زدہ ہوگئے۔ 19 جنوری 1990ء کو جگموہن کا بحیثیت گورنر دوبارہ تقرر عمل میں آیا۔ فاروق عبداللہ نے استعفیٰ دیا۔ اسی رات سکیورٹی فورسیس نے تقریباً 300 لوگوں کے گھروں کی تلاشی لی۔ انہیں بڑی بے رحمی سے پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا۔ ان گرفتاریوں اور سکیورٹی فورسیس کے ناروا سلوک کے خلاف کشمیری ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ جن پر فائرنگ کی گئی جن میں 50 احتجاجی مارے۔ یہ قتل عام کا واقعہ گاؤںکدل میں پیش آیا۔ریاست کا کام یہ تھا کہ وہ ڈری سہمی کمیونٹی کا تحفظ کرتی اور انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرتی لیکن جگموہن نے کچھ اور طریقہ اپنایا اور انہوں نے پنڈتوں سے محفوظ تخلیہ کروانے کا وعدہ کیا۔ اس وقت افواہ یہ تھی کہ جگموہن وادی کو پنڈتوں سے خالی کرکے مسلمانوں کے خلاف بدترین کارروائی کا جگموہن منصوبہ رکھتے تھے۔ جس طرح جگموہن تمام مسلمانوں کو انتہا پسند تصور کرتے تھے۔ اسی طرح ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ 3.5 لاکھ پنڈتوں نے نقل مکانی کی 50 ہزار مسلمانوں کو بھی وادی چھورنا پڑا۔ کیا اسے نسل کشی کہہ سکتے ہیں۔ نسل کشی کا مطلب ایسا تشدد جس کے ذریعہ نسل کا بالکل صفایا ہوتا ہے۔ انتہا پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے کشمیریوں کی تعداد (آئی ٹی آئی انکوائری 27-11-2021 کے مطابق) کچھ اس طرح رہی۔ 89 پنڈت اور دیگر 1635 (زیادہ تر مسلم، سکھ اور سکیورٹی فورسیس) شامل ہیں۔ ’’دی کشمیر فائیلس‘‘ تو جھوٹ کی بنیاد پر بنادی گئی لیکن ہندوستان نے نیلی، ممبئی، گجرات، دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام دیکھا جہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مارے گئے۔ دہلی میں سکھوں کا بھی قتل عام ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ گجرات قتل عام پر فلم “Perzania” بنائی گئی لیکن گجرات میں اس کی نمائش یا ریلیز نہیں کی گئی۔