پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں گزشتہ ہفتہ مباحث کے دوران حکومت نے ایسا تاثر دیا کہ آپریشن سندور بالآخر روک دیا گیا اور اس فوجی کارروائی (آپریشن سندور) کے جو مقاصد تھے وہ ہماری فوج نے حاصل کرلئے اور سب کچھ معمول پر واپس آگیا ہے۔ ایسا سوچنا غلط ہوگا اور حقیقت یہ ہے کہ فوج ایک مشکل کھیل کھیل رہی تھی یعنی ایک مشکل صورتحال کا سامنا کررہی تھی جبکہ سویلین حکومت نے زبردستی گیند چھین لی تھی (دشمن ملک یا ملکوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے لئے فوج اُس وقت ہی آگے بڑھتی ہے جب سویلین حکومت اپنے قدم آگے بڑھاتی ہے اور ملک کے مفاد میں فیصلے کرتی ہے) آپریشن سندور نے کچھ ایسی غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا ہے کہ پاکستان کے خلاف جنگ آسان ہوگی اور روایتی جنگوں میں ہندوستان کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہا۔ یہ بھی ایک غلط فہمی دور ہوگئی کہ دنیا میں ہندوستان کے دوست بہت ہیں، پاکستان کا کوئی ملک دوست نہیں۔
فوجی بمقابلہ سیاسی قیادت: فوجی قیادت فقیدالمثال رہی یا مثالی رہی بظاہر فوجی قیادت نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی اجازت طلب کی اور اسے اجازت بھی مل گئی۔ ہندوستانی فوج کا پاکستان کے چنندہ اہداف (دہشت گردوں کے تربیتی مراکز) کو نشانہ بنانے کے لئے پہلے حملہ کرنا اسے اس جنگ میں ابتدائی کامیابی بلکہ کامیابیاں دلانے میں ممد و معاون ثابت ہوا۔ ہندوستانی فوج نے اپنے ابتدائی حملوں میں 9 مقامات کو نشانہ بناکر انھیں تباہ و برباد کردیا۔ ان مقامات پر دہشت گردوں کو دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے کی تربیت دی جارہی تھی۔ ہندوستانی فوج کے حملوں میں نہ صرف دہشت گردی کے تربیتی مرکز تباہ و برباد ہوئے بلکہ بے شمار دہشت گرد بھی مارے گئے۔ تاہم پاکستانی مسلح افواج بڑی تیزی کے ساتھ سنبھل گئی اور پھر پاکستانی فوج نے 7-8 مئی کو جوابی حملے کئے اور اِن حملوں کے لئے اس نے چینی ساختہ جنگی طیاروں (J-10)، چینی ساختہ میزائیلوں (PL-15) اور ترکیہ سے حاصل کردہ ڈرونس کا استعمال کیا۔ فوجی حکمت عملی میں غلطیوں کے ارتکاب کا احساس ہونے یا اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد فوجی قیادت نے آپریشن سندور روک دیا اور حکمت عملی کا دوبارہ تعین کیا اور یہی قیادت ہوتی ہے۔ ہندوستانی فوجی قیادت نے 9-10 مئی کو پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا دوبارہ آغاز کیا جس میں پاکستان کے 11 فوجی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا جس سے پاکستان کا بہت زیادہ نقصان ہوا اور جیسا کہ ہر جنگ میں ہوتا ہے فریقین میں سے ایک کو بہت زیادہ نقصان اور دوسرے کو کسی قدر نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے چنانچہ ہندوستانی مسلح افواج کو کچھ نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف، ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف نے ان نقصانات کا اعتراف بھی کیا۔ سیاسی قیادت (حکومت) نے پرزور انداز میں یہ دعویٰ کیاکہ ہندوستان کو پاکستان کے خلاف آپریشن سندور میں فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔ اگر ہمیں فیصلہ کن کامیابی حاصل ہوتی تو پھر ہندوستان نے اس فیصلہ کن فتح کا فائدہ کیوں نہیں اُٹھایا۔ زیادہ سے زیادہ فوجی کامیابیاں حاصل کرنے سے قاصر کیوں رہی؟ کیا پاکستان کے ساتھ سیاسی شرائط سے اتفاق کیا گیا، سیاسی مراعات کیوں مانگ رہے ہیں اس بارے میں حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت منظر عام پر نہیں آئی (جیسا کہ 16 ڈسمبر 1971ء کو پاکستانی جنرل نیازی نے اپنے ہزاروں فوجیوں کے ہمراہ ہندوستان کے لیفٹننٹ جنرل آورورہ کے آگے خودسپردگی اختیار کی اور اس موقع پر ہندوستان میں زبردست جشن منایا گیا اور فتح کا وہ جشن ایک مثالی جشن تھا)
تلخ حقائق : سیاسی قیادت اس سچائی کو قبول نہیں کرے گی کہ پاکستان اور چین نے مضبوط فوجی اور سیاسی تعلقات قائم کرلئے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین اب پاکستان کو عصری لڑاکا طیارے اور میزائیل فراہم کررہا ہے۔ ظاہر ہے چینی وزیر خارجہ Wang Yi نے پاکستان کو قرض کے حصول میں بھی مدد کی اور اس کی تائید و حمایت کی۔ دوسرا سچ یہ ہے کہ پاکستان (کم از کم فوجی سطح پر) اب بھی امریکہ سے قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں ترتیب دیئے گئے ظہرانہ پر مدعو کیا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی کیوں کہ عاصم منیر نہ تو پاکستان کے سربراہ ہیں اور نہ ہی پاکستان کی حکومت ان کی قیادت میں کام کررہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنرل عاصم منیر کا اس بات کے لئے شکریہ ادا کیاکہ انھوں نے ہندوستان کے ساتھ جنگ جاری نہیں رکھی اور جنگ ختم کروانے میں کامیاب رہے۔ آپریشن سندور کے جواب میں پاکستان نے چین کی مدد سے حملے کئے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چین نے پاکستان کی اُس وقت بھی تائید و حمایت کی جب عالمی مالیاتی ادارہ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو خطیر رقومات پر مشتمل قرضہ جات منظور کئے۔ وزیراعظم اور وزیرداخلہ اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ نشانے اور اس کے الزامات کا جواب دینے میں کبھی تاخیر نہیں کرتے لیکن امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یا چینی صدر ژی جن پنگ یا ان کے وزرائے خارجہ کے الزامات کا رد کرنے یا ان کے جوابات کی جرأت و ہمت نہیں کرتے اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تائید و حمایت کے معاملہ میں امریکہ اور چین ایک ہی صفحہ پر ہیں یعنی دونوں کا موقف ایک ہی ہے اور یہ دونوں ملک پاکستان کی فوجی، سیاسی اور اقتصادی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان لاکھ اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی مدد اس کی تائید و حمایت کے معاملہ میں دونوں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ امریکہ اور چین نے پاکستان کی تائید کرنے اور اس کی سرپرستی کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس سے بڑھ کر مایوسی کی بات کیا ہوگی کہ ہندوستان نے اپنے وفود جن ملکوں کو روانہ کئے تھے (تاکہ پاکستان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے حکومتوں کو واقف کروایا جائے) ان ملکوں نے پہلگام حملہ کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور دہشت گردی کی مذمت کی لیکن پاکستان کی مذمت کرنے سے گریز کیا۔ ہندوستانی سیاسی قیادت نے حقیقت تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس بات کو ماننے کا سلسلہ جاری رکھا کہ پاکستان کا کوئی دوست نہیں اور دنیا بھر کے ممالک ہندوستان کے دوست ہیں۔
دراندازی پر موقف : ہندوستان کی سیاسی قیادت جو دوسرے فریب یا خوش فہمی میں مبتلا ہے وہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں اس نے دہشت گردی کا ایکو سسٹم پوری طرح تباہ و برباد کرکے رکھ دیا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے اس امر کا انکشاف کیا اور وہ بھی 24 اپریل 2025ء کو منعقدہ کل جماعتی اجلاس میں (22 اپریل کو پیش آئے پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے فوری بعد) کہ جون 2014ء اور مئی 2024ء کے درمیان 1643 دہشت گردانہ واقعات پیش آئے جبکہ دراندازی کی 1925 کوششیں کی گئیں جن میں 726 کوششیں کامیاب ہوئیں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں 575 سکیورٹی ارکان یا فوجی مارے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹل بہاری واجپائی حکومت (1998-2004ء) اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت (2004-2014ء) میں بھی دہشت گردانہ واقعات پیش آئے تھے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ آپ کو بتادیں کہ پاکستان میں مقیم دہشت گردوں اور ہندوستان میں موجود انتہا پسندوں کی جانب سے خاص طور پر کشمیر میں دراندازی کی جاتی ہے اور اکثر یہ دہشت گرد مل جلکر کام کرتے ہیں مل جلکر حملے کرتے ہیں۔ 26 اپریل کو حکومت نے کشمیر میں مشتبہ دہشت گردوں کے بے شمار مکانات منہدم کئے ان پر پہلگام دہشت گردانہ حملوں میں ملوث رہنے کا شبہ تھا۔