فیس بُک پر بی جے پی کا دبدبہ انتخابات میں بھرپور استعمال

   

کے سمبھوا؍نین تارا رنگناتھن
حکمراں جماعت بی جے پی کی تائید کی حمایت کرنے والے صنعت کاروں، میڈیا گھرانوں اور تاجرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ویسے بھی بی جے پی کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہ عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے تاکہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرسکے، لیکن بی جے پی قائدین نے ہمیشہ اس طرح کے الزامات کی تردید کی ہے تاہم تردید کرنے سے سچائی چھپ نہیں سکتی۔ حالیہ عرصہ کے دوران سارے ملک نے دیکھا کہ پانچ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کیلئے اس کے حامیوں اور مذہبی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے والے مواد نے اسے بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ حد تو یہ رہی کہ فیس بک کے الگورتھم پر سستی شرح پر اشتہارات حاصل کرنے میں مدد کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے حامیوں رائے دہندوں تک رسائی حاصل کرنے میں بی جے پی کو غیرمعمولی مدد ملی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کئی برسوں سے اپنے حریف جماعتوں کے خلاف فیس بک اور دیگر سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس کو بہت ہی ہوشیاری اور مکاری سے استعمال کررہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ 2020ء میں ایک ایسا اشتہار بھی دیکھا گیا جسے فیس بک نے صرف ایک دن میں دیڑھ لاکھ تا ایک لاکھ 75 ہزار مرتبہ دکھایا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس اشتہار کیلئے بی جے پی نے فیس بک پر صرف 56 ڈالرس (4,250 روپئے اس کا مطلب یہ ہوا کہ فی ویو 3 پیسے خرچ کئے اور اسے وائرل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس اشتہار میں جو بہار اسمبلی انتخابات سے قبل جاری کیا گیا تھا، جان بوجھ کر اصل حریف پارٹی آر جے ڈی کے عہدۂ وزارت اعلیٰ کے امیدوار تیجسوی یادو پر ایک حریف سیاسی قائد کے قتل میں کردار ادا کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس طرح کے اشتہارات کوئی اکا دکا واقعات نہیں بلکہ بی جے پی انتہائی کم پیسوں میں رائے دہندوں تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہی۔ واضح رہے کہ حالیہ انتخابات کے دوران بھی فیس بک پر بی جے پی کیلئے کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کی بہ نسبت بہت کم اشتہاری شرح لگائی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ رائے دہندوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہر سیاسی جماعت انتخابی مہم چلانے کیلئے ایک مخصوص فنڈ رکھتی ہے اور فیس بک جیسے پلیٹ فارم انہیں عوام تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیس بک کا اشتہاری پلیٹ فارم صرف بی جے پی کے حق میں کیوں ہے؟ یہ بھی انکشاف ہوا کہ فیس بک مینجمنٹ میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے کھل کر بی جے پی کی طرفداری کی، لیکن پلیٹ فارم پر اشتہارات میں بی جے پی کو جو فائدہ حاصل ہوا، وہ کمپنی میں کسی ایک یا چند افراد کی وجہ سے نہیں ہوسکتا۔ فیس بک بھی ایسا لگتا ہے کہ اپنے الگورتھم کے ذریعہ بی جے پی کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ دراصل صارفین کو ان کی نیوز فیڈ پر مصروف رکھنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ فیس بک کے الگورتھم جو اشتہار کی فیس کا تعین کرتے ہیں، وہ ایسے اشتہارات کے حق میں ہیں، جن سے زیادہ اِنگیجمنٹ یعنی لائیک، شیئرس یا کامینٹس ملتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کیلئے فرضی ناموں سے کام کرنے والوں اڈورٹائزر نے بہت زیادہ اشتہارات دیئے اور اکثر فیس بک پر اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے والے جذباتی یا سیاسی مواد کے ساتھ پرزور تشہیر کی تو یہ اشتہارات خود بہ خود سستے پڑیں گے۔ اس کے برعکس کسی چھوٹی پارٹی کو زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ یہ ایسا سسٹم ہے جس نے 2020ء میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو جوبائیڈن کے مقابلے میں اشتہارات دینے میں مدد کیا اور ہمارے ملک میں بھی اسی نظام کا فائدہ بی جے پی کو مل رہا ہے۔ ویسے بھی فیس بک پر بی جے پی کا زبردست دبدبہ ہے اور اس کی وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ بی جے پی کے فالوورس کی تعداد ہندوستان کی کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے زیادہ ہے۔ باالفاظ دیگر بی جے پی فیس بک کو سب سے زیادہ اشتہارات دیتی ہے۔ اسی وجہ سے فیس بک پلیٹ فارم نے بی جے پی سے وابستہ لیکن گمنام اور مستعار اڈورٹائزر کو ملک کے انتخابی قوانین اور اس کے رہنمایانہ خطوط کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے فیس بک پر پروپگنڈہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ بہرحال اس ضمن میں ہم نے کئی سیریز کے ذریعہ لوگوں کو حقیقت سے واقف کروایا ہے۔