فیصلہ بابری مسجد کا مسلمانوں نے صبر و تحمل کی مثال قائم کردی

   

Ferty9 Clinic

پروفیسر شمیم علیم
فیصلہ آنے کے کئی دن بعد پہلے سے حفاطتی انتظامات تیز کردیئے گئے تھے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے خود ایودھیا میں نظم و نسق کا جائزہ لیا تھا۔ لوگوں سے بار بار درخواست کی جارہی تھی کہ صبر و تحمل سے کام لیں۔ بیان بازی سے گریز کریں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نیک دلی سے قبول کریں۔ ان تیاریوں کو دیکھ کر ہی سپریم کورٹ کے دھماکہ کا اندازہ ہوگیا تھا۔
اور پھر صبح صبح جیسے ایک بھونچال آگیا ہو۔ عدلیہ کے اس فیصلے پر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ لب خاموش تھے۔ دلوں نے دھڑکنا بند کردیا۔ ویسے خوشی ہوئی کہ کورٹ نے آخر اس بات کا اعتراف کرلیا کہ 1949ء میں مسجد کے اندر جو مورتیاں بٹھائی گئی تھیں، وہ غیرقانونی حرکت تھی۔ اس نے 1962ء میں بابری مسجد کو مسمار کرنے کو بھی جرم مان لیا۔ بہت ہی پرزور الفاظ میں اس کی مذمت کی، لیکن اس کے بعد کا قدم بے حد حیران تھا۔
میرے ذہن میں بعض ملکوں کی وہ روایت آگئی کہ “Marry Your Rapist” یعنی ایک شخص ایک عورت کی عصمت ریزی کرتا ہے اور سماج اس عورت کو مجرم سے شادی کرنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ خاندان اور سماج بدنام سے بچ سکیں۔ کورٹ کا فیصلہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔کورٹ نے خزانہ کی کنجی چوروں کے حوالے کردی۔
ظاہر ہے کہ ایک طبقہ اس فیصلے سے نہ مطمئن ہے نہ خوش ہے لیکن وہ بے بس ہے، مجبور ہے، کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ سوچئے! اگر الہ آباد ہائیکورٹ فیصلہ پر عمل کیا جاتا اور اس ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جاتا تو کیا ہندوستان میں کبھی امن و امان قائم ہوسکتا تھا۔ نہ لوگ مسجد میں نماز پڑھتے نہ مندر میں پوجا کرسکتے۔ یہ ہنگامہ صرف گالی گلوج تک ہی نہ رہتا بلکہ لگاتار قتل و غارت گری کا ماحول بنا رہتا۔
اور اگر آج سپریم کورٹ ہندؤں کو مجرم مان کر مسلمانوں کو وہاں بابری مسجد بنانے کی اجازت دے دیتا تو کیا کبھی وہاں بابری مسجد بن سکتی؟ کیا وہاں کبھی عبادت ہوسکتی تھی، جب کروڑوں انسانوں کے جذبات مجروح ہوئے، جب اپنے دلوں میں مذہب کا بھوت سوار رہتا ہے تو کیا وہ خاموش تماشائی بنے رہتے۔ 1962ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود کس طرح بابری مسجد کو مسمار کردیا۔ سرکار تماشائی بنی دیکھتی رہی اور آج 27 سال سے زیادہ ہوگئے ہیں اس مقدمہ کا اختتام نہیں ہوا۔ مجرموں کو سزا نہیں ملی اور آج بھی وہ شان سے سیاست کی گدیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں،وہ گنگا جمنی تہذیب جس کے لئے ہندوستان مشہور تھا۔ آج وہ تہذیب ڈھونڈتے ڈھونڈتے نہیں ملتی۔ اسی لئے آج مسلمان خاموش ہوگئے، وہ بزدل نہیں ہیں، لیکن حکمت عملی پسند ہیں۔ انہیں اپنے خدا وندے کریم پر بھروسہ ہے جس طرح آج انہوں نے انقلابی قدم اٹھاکر ایک مثال قائم کردی ہے۔ اللہ ضرور ایک دن انہیں اس کا بدلہ دے گا۔ رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہی تو تھے جس کے ذریعہ انہیں مکہ کی فتح نصیب کی۔ ہر ظلم کا اختتام ہوتا ہے۔ خداوندے کریم سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو صحیح راستہ دکھائے۔ اس پر چلنے کی توفیق دے اور ان کا سر ہمیشہ بلند رکھے۔ آمین۔
اخبار، ریڈیو ٹی وی سب پر صرف ایک ہی خبر اور انتظار بھی تو کتنا تھا، برسوں سے جس مسئلہ کو سلجھایا نہیں جاسکا تھا، عرصہ سے جس کے نام پر اس ملک میں قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ آج شاید وہ جھگڑا ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا۔ شاید یہ نفرت کا ماحول محبت و پیار میں تبدیل ہوجائے۔ لوگوں کی آنکھوں کی نیند غائب ہوگئی تھی۔ ہر انسان دل ہی دل میں خوش تھا۔ اسے یقین تھا کہ فیصلہ اس کے حق میں ہوگا۔ کٹر ہندو افراد کا عقیدہ تھا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی جگہ ہوا تھا‘‘ اس لئے اس پر صرف ان کا حق ہے۔ ان کے جذبات لوگوں کو مجروح کرسکتے ہیں۔ ہندوستان میں برسوں سے چاروں طرف سے صرف ایک ہی صدا آرہی تھی، مندر تو صرف بابری مسجد کی جگہ پر ہی بنے گی۔ جب سے یہ مقدمہ کورٹ میں تھا، ایسا لگتا تھا کہ انہیں Hypnotise کیا جارہا ہے۔ جب ایک جھوٹ بار بار دھرایا جاتا ہے تو وہ سچ بن جاتا ہے۔