مالیگاؤں … کل کے ملزم آج بے قصور
امیت شاہ کے فرزند … پاکستان کے ساتھ
نریندر مودی … 16 گھنٹے میں دو سوالات کا جواب نہیں
رشیدالدین
’’انصاف یا انصاف کا قتل‘‘ مالیگاؤں بم دھماکہ کے مہلوکین کے خاندانوں اور زخمیوں کو کیا انصاف مل چکا ہے ؟ ممبئی کی این آئی اے (NIA) عدالت کے فیصلہ نے پھر ایک بار ثابت کردیا کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ جب تک مودی کا اقتدار رہے گا ، زعفرانی دہشت گردوں کو سزا نہیں مل سکتی۔ وہ اس لئے کہ زعفرانی دہشت گرد دراصل آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کی تکمیل کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ 29 ستمبر 2008 کو مالیگاؤں کی مسجد کے باہر بم دھماکہ میں 6 مصلی جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔ متاثرہ خاندانوں کو گزشتہ 18 برسوں سے انصاف کا انتظار تھا لیکن آخر کار وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ۔ این آئی اے کی خصوصی عدالت نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ، کرنل پروہت سمیت 7 ملزمین کو بری کردیا۔ این آئی اے عدالت کے فیصلہ پر ہمیں کوئی حیرت اور تعجب اس لئے بھی نہیں ہے کہ مودی حکومت نے ایسے تمام دہشت گرد واقعات کے ملزمین کو کلین چٹ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جن میں زعفرانی دہشت گرد ملوث تھے۔ گجرات فسادات کے تمام ملزمین کو جس طرح بری کردیا گیا، اسی طرح مکہ مسجد ، اجمیر ، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں بم دھماکوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ جس طرح گجرات میں مسلم کش فسادات کے معاملہ میں مودی اور امیت شاہ بے قصور ہیں ، اسی طرح ملک کے مختلف مقامات پر بم دھماکوں کے ذمہ دار زعفرانی دہشت گرد بھی معصوم ہیں۔ 18 سال سے انصاف کا انتظار کرنے والے خاندانوں کو این آئی اے عدالت نے مایوس کردیا۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کی تحقیقات ممبئی کی اے ٹی ایس نے کی تھی جس کی قیادت ملک پر جان نچھاور کرنے والے بہادر پولیس عہدیدار ہیمنت کرکرے نے کی تھی ۔ سادھوی پرگیہ اور کرنل پروہت کے خلاف ٹھوس ثبوت اکھٹا کئے گئے تھے لیکن جیسے ہی تحقیقات این آئی اے کے سپرد کی گئی ہر کسی کو یقین ہوچکا تھا کہ زعفرانی دہشت گرد بچ جائیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ممبئی اے ٹی ایس نے جو ثبوت اکھٹا کئے تھے، ان کو قبول کیوں نہیں کیا گیا۔ این آئی اے عدالت کے فیصلہ کا ہمیں دو دن قبل اسی وقت اندازہ ہوچکا تھا جب لوک سبھا میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے فخر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امیت شاہ کے بیان کی بنیاد پر ہی این آئی اے جج نے فیصلہ سنایا یا پھر امیت شاہ فیصلہ کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے لوک سبھا میں دہشت گردی کو صرف مسلمانوں سے جوڑ دیا۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کے فیصلہ کا جائزہ لینے سے قبل امیت شاہ کے بیان کے پس منظر پر بحث ضروری ہے ۔ بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد سے مودی اور امیت شاہ نے بارہا دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی اور زعفرانی تنظیموں کو دیش بھکت قرار دیا۔ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اس حد تک پہنچ گئی کہ گجرات فسادات پر افسوس کیلئے بھی کوئی تیار نہیں۔ وزیراعظم کے عہدہ پر فائز نریندر مودی جنہوں نے سماج کے تمام طبقات کے ساتھ انصاف اور یکساں سلوک کا دستور ہند پر حلف لیا اور یہ حلف بھگوان کے نام پر تین مرتبہ لیا جاچکا ہے لیکن مودی نے مسلمانوں کو زائد بچے پیدا کرنے والے اور لباس دیکھ کر شرپسندوں کی شناخت جیسے ریمارکس کرتے ہوئے مسلمانوں سے اپنی چھپی ہوئی نفرت کو ظاہر کردیا۔ مسلمانوں سے جب ہر سطح اور ہر شعبہ میں ناانصافی ہے تو پھر دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ کیوں ؟ امیت شاہ نے لوک سبھا میں آپریشن سندور پر مباحث کے دوران کہا کہ ملک اور دنیا کے سامنے میں فخر سے کہتا ہے کہ ہندو کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ امیت شاہ کیا بتاسکتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کو ہلاک کرنے والا کون تھا ۔ اندرا گاندھی کو گولیوں سے چھلنی کرنے والے کون تھے ۔ راجیو گاندھی کو انسانی بم سے اڑانے والے کون تھے ؟ کیا تینوں قومی رہنماؤں کے قاتل مسلمان تھے ؟ مہاتما گاندھی کا قاتل ناتھورام گوڈسے اور انگریزوں کا ایجنٹ ساورکر، امیت شاہ کیلئے قومی ہیرو سے کم نہیں ہیں۔ امیت شاہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے ریکارڈ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہندوستان کے دفاعی راز پاکستان کو دینے والے اور ہندوستان کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار لوگوں میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے۔ جدوجہد آزادی سے لے کر آج تک ملک کیلئے قربانی دینے والوں میں مسلمان پیش پیش رہے۔ مسلمانوں نے پاکستان کے ٹینکوں کو حولدار عبدالحمید بن کر تباہ کرنے کا کام کیا۔ آپریشن سندور میں کرنل صوفیہ قریشی نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا کارنامہ انجام دیا لیکن اس کے جواب میں انہیں بہادری اور حب الوطنی کا مڈل دینے کے بجائے دہشت گردوں کی بہن کے خطاب سے نوازا گیا۔ مدھیہ پردیش کے بی جے پی وزیر کے خلاف آج تک کارروائی نہیں کی گئی جبکہ سپریم کورٹ نے ان کی سرزنش کی۔ اگر کسی غیر مسلم فوجی عہدیدار کے بارے میں کوئی مسلمان اس طرح کا تبصرہ کرتا تو اسے فوری جیل میں بند کردیا جاتا۔ دراصل یہی سوچ مودی اور امیت شاہ کی ہے کہ دہشت گردی کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔ امیت شاہ کو شائد یہ بھی بتانا پڑے گا کہ پاکستان کے خلاف جن ہندوستانی میزائلز نے دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کیا، وہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا کارنامہ ہے ، جنہوں نے ملک کو طاقتور اور عصری میزائیل ٹکنالوجی عطا کی۔ پہلگام میں ہندو سیاحوں کو بچانے کے لئے دہشت گردوں سے لڑکر اپنی جان دینے والے بھی مسلمان تھے ۔ پہلگام کے سیاحوں کو محفوظ مقامات منتقل کرنے والے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے والے بھی کشمیری مسلمان تھے جن کا مودی اور امیت شاہ نے کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ مسلمانوں کو یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ ملک کے ’’در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم‘‘۔
جب کوئی ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتا تو پھر امیت شاہ بتائیں جئے شاہ کون ہیں، وہ ہندو ہیں یا کچھ اور کیونکہ وہ دہشت گرد ملک پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی تائید بھی از خود دہشت گردی سے کم نہیں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے اور سندھو ندی کا پانی پاکستان پر بند کردیا گیا لیکن نریندر مودی کے بھتیجے اور امیت شاہ کے سپوت جئے شاہ ایشیا کپ 2025 میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے والے ہیں۔ جب خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے تو پھر خون اور کرکٹ ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔ امیت شاہ اپنے بیٹے کے بارے میں کیا کہیں گے ؟ رہی بات مالیگاؤں بم دھماکہ پر این آئی اے عدالت کے فیصلہ کی تو اس بارے میں مودی حکومت کا امتحان ہے۔ ممبئی ٹرین دھماکوں کے 12 ملزمین کو ممبئی ہائی کورٹ نے بری کردیا تھا لیکن اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیاکیونکہ تمام ملزمین مسلمان تھے۔ کیا مالیگاؤں دھماکہ سے متعلق این آئی اے کورٹ کے فیصلہ کو بھی چیلنج کیا جائے گا؟ اگر دہشت گردی پر حکومت کا دوہرا معیار نہیں ہے تو اسے این آئی اے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنی چاہئے ۔ دہشت گردی پر انصاف کو مذہبی عینک سے دیکھنے کے بجائے جرم کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ دوسری طرف پہلگام دہشت گرد حملہ اور آپریشن سندور کے تقریباً 100 دن بعد پارلیمنٹ میں مباحث ہوئے۔ حکومت نے پہلگام دہشت گرد حملہ کے بجائے صرف آپریشن سندور پر بحث کو ترجیح دی۔ لوک سبھا میں 16 گھنٹے تک مباحث ہوئے اور وزیراعظم نریندر مودی نے 1-40 گھنٹے تقریر کی لیکن قوم کے سوالات کا جواب نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم کی تقریر انتہائی سطحی اور کمزور دکھائی دے رہی تھی اور انہوں نے اپنی تقریر میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور چین کا نام لینے کی ہمت نہیں کی۔ 16 گھنٹے کی بحث میں جن دو سوالات کے جوابات نہیں دیئے گئے ان میں پہلگام میں سیکوریٹی خامیوں کے ذمہ داروں اور پاکستان کو پسپا کرنے کے موقف کے باوجود اچانک سیز فائر کی وجوہات کا جواب نہیں دیا گیا۔ ٹرمپ نے 30 سے زائد مرتبہ یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے مداخلت کرتے ہوئے جنگ بندی کرائی ہے۔ نریندر مودی نے ایک مرتبہ بھی نام لے کر ٹرمپ کے دعوے کی تردید نہیں کی۔ نریندر مودی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک طرف ٹرمپ تو دوسری طرف چین سے خوفزدہ ہیں۔ آپریشن سندور کے دوران ہندوستانی افواج کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے چین نے لڑائی کی تھی۔ باوجود اس کے نریندر مودی نے چین کا نام نہیں لیا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر کو پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی پر تنقید کے لئے استعمال کیا، حالانکہ اگر اندرا گاندھی کی طرح مودی میں 50 فیصد بھی ہمت ہوتی تو وہ امریکہ کے دباؤ میں نہ آتے اور 30 بار دعویٰ کرنے والے ٹرمپ کا نام لے کر جواب دیتے۔ امریکہ نے روس اور چین سے ہندوستان کی تجارت پر برہم ہوکر ہندوستانی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف اور جرمانہ کا اعلان کیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرتے ہوئے ہندوستان اپنا احتجاج درج کراتا لیکن ہندوستان کی خارجہ پالیسی اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ ملک میں مودی حکومت کا وجود اور عدم وجود برابر ہوچکا ہے۔ حکومت کے بغیر بھی ملک چل سکتا ہے۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کے فیصلہ پر وسیم بریلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
فیصلہ لکھا ہوا رکھا ہے پہلے سے خلاف
آپ کیا خاک عدالت میں صفائی دیں گے