فیصلہ کن سوال

,

   

کیا آپ مغربی معاشرت کے ان نتائج کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہیں جو یورپ اور امریکہ میں رونما ہو چکے ہیں اور جو اُس طرز معاشرت کے طبعی اور یقینی نتائج ہیں؟ کیا آپ اس کو پسند کرتے ہیں کہ آپ کی سوسائٹی میں بھی وہی ہیجان انگیز اور شہوانی ماحول پیدا ہو؟ آپ کی قوم میں بھی اس طرح بے حیائی، بے عصمتی اور فواحش کی کثرت ہو؟ امراض خبیثہ کی ہوائیں چلیں؟ خاندان اور گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے؟ طلاق اور تفریق کا زور ہو؟ نوجوان مرد اور عورتیں آزاد شہوت رانی کی خوگر ہو جائیں؟ منع حمل اور اسقاط حمل اور قتل اولاد سے نسلیں منقطع کی جائیں؟ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں حد اعتدال سے بڑھی ہوئی شہوانیت میں اپنی بہترین عملی قوتوں کو ضائع اور اپنی صحتوں کو برباد کریں؟ حتی کہ کمسن بچوں تک میں قبل از وقت صنفی میلانات پیدا ہونے لگیں اور اس سے ان کے دماغی و جسمانی نشونما میں ابتداء ہی میں فتور برپا ہو جایا کرے؟ اگر مادی منفعتوں اور حسی لذتوں کی خاطر آپ ان سب باتوں کو گوارا کرنے کے لیے تیار ہیں، تو بلا تامل مغربی راستے پر تشریف لے جائیے اور اسلام کا نام بھی زبان پر نہ لائیے۔ اس راستے پر جانے سے پہلے آپ کو اسلام سے قطع تعلقی کا اعلان کرنا پڑے گا تا کہ آپ بعد میں اس نام کو استعمال کر کے کسی کو دھوکہ نہ دے سکیں اور آپ کی رسوائیاں اسلام اور مسلمانوں کے لیے موجب ننگ و عار نہ بن سکیں۔ لیکن اگر آپ ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر آپ کو ایک ایسے صالح اور پاکیزه تمدن کی ضرورت ہے جس میں اخلاق فاضلہ اور ملکات شریفہ پرورش پاسکیں، جس میں انسان کو اپنی عقلی اور روحانی اور مادی ترقی کے لیے ایک پرسکون ماحول ملے کے جس میں عورت اور مرد بھی بہیمی جذبات کی خلل اندازی سے محفوظ رہ کر اپنی بہترین استعداد کے مطابق اپنے اپنے تمدنی فرائض کو انجام دے سکیں، جس میں تمدن کا سنگ بنیاد یعنی خاندان پورے استحکام کے ساتھ قائم ہو، جس میں نسلیں محفوظ رہیں اور اختلاف انساب کا قتنہ برپا نہ ہو، جس میں انسان کی خانگی زندگی اس کے لئے سکون و راحت کی جنت اور اس کی اولاد کے لیے مشفقانہ تربیت کا گہوارہ اور خاندان کے تمام افراد کے لیے اشتراک عمل اور امداد باہمی کی انجمن ہو، تو ان مقاصد کے لئے آپ کو مغربی راستے کا رخ بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ بالكل مخالف سمت کو جا رہا ہے اور مغرب کی طرف چل کر مشرق کو پہنچ جانا عقلاً محال ہے۔ اگر فی الحقیقت آپ کے مقاصد یہی ہیں تو آپ کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

مولانا سید ابو الاعلی مودودی صاحب رحمہ اللہ

سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ