ظفر آغا
پتہ نہیں عقل آئی یا حالات نے مجبور کر دیا۔ شاید دونوں کا ہی اثر ہے۔ آثار تو یہی نظر آتے ہیں کہ کچھ عقل تو آئی۔ یہاں ذکر ہو رہا ہے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے ایک بیان کا۔ انھوں نے چند روز قبل یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں ایک اہم بیان جاری کیا۔ اس بیان کی دو سب سے اہم باتیں تھیں۔ ان کا کہنا ہے مسلمان حکومت ہند کی یونیفارم سول کوڈ کے سلسلے میں متوقع قدم کی مخالفت کریں گے، لیکن کسی عالم دین نے جو غالباً پہلی بار کہا ہے وہ سب سے زیادہ اہم ہے اور وہ بات یہ ہے کہ مولانا ارشد مدنی کا مسلمانوں کو یہ مشورہ ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کا تعلق ہر مذہب اور قوم سے ہے، اس لیے مسلمانوں کو اکیلے اس معاملے میں سڑکوں پر نہیں اترنا چاہئے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں مولانا ارشد مدنی کی لائن مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی مان لی۔ یہ تقریباً تیس برسوں میں پہلی بار ہوا کہ کسی بھی مذہبی ایشو پر علما یا پرسنل لاء بورڈ نے جذباتی موقف نہیں اپنایا۔ ورنہ سنگھ اور بی جے پی کی طرف سے جہاں مسلمانوں کے شرعی ایشو کو چھیڑا گیا، بس وہاں ’اسلام خطرے میں‘ اور ملت کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کی قواعد شروع۔ اور پھر ملت نعرۂ تکبیر سے لیس جہاد کو تیار سڑکوں اور ریالیوں میں اکٹھا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بی جے پی کی دلی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ مذہبی معاملات میں مسلمان زیادہ سے زیادہ تعداد میں سڑکوں پر نکلے۔ ادھر جتنی زیادہ تعداد میں سڑکوں پر قائدین ملت کی دکانیں ہوتیں، اتنی ہی بی جے پی چمک اٹھتی۔ نتیجہ کیا ہوتا تھا، کچھ ہی عرصے بعد وشو ہندو پریشد کی جانب سے جوابی کارروائی شروع ہوتی تھی۔ ذرا سی مدت میں فسادات، لوٹ پاٹ سب کچھ بپا اور نقصان میں مسلمان۔
سنہ 1985 میں شاہ بانو ایشو رہا ہو، یا پھر سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے فوراً بعد اگر آپ مسلم تحریکوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو مسلم قیادت کا یہی رول نظر آئے گا۔ تین طلاق کے ایشو پر مسلم پرسنل لاء کے جذباتی بیانات اور اکثر احتجاج بھی کون بھول سکتا ہے۔ پھر سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جذباتی ریالیاں بھی کون بھول سکتا ہے۔ ’اکابرین ملت‘ بابری مسجد کے تحفظ میں جان قربان کرنے کو تیار نظر آتے تھے۔ ظاہر ہے کہ پھر ’قوم‘ تو کچھ دو قدم آگے ہی ہوگی۔ سڑکوں پر نعرۂ تکبیر اور ’لے کے رہیں گے بابری مسجد‘ جیسے نعروں کی گونج۔ سنہ 1947 میں سنتے ہیں ایسے ہی غیر منقسم ہندوستان کی سڑکوں پر ’لے کر رہیں گے پاکستان‘ نعروں کی گونج رہتی تھی۔ ہوا کیا، ہندو۔مسلمان دونوں مارے گئے، لیکن بڑے خسارے میں کون رہا! ہندوستانی مسلمان اس بٹوارے کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے۔ ایسے میں جب لوگ ’لے کر رہیں گے بابری مسجد‘ جیسے نعروں کے ساتھ سڑکوں پر نکلے تو کچھ عرصے بعد ہندو بھی ’جئے سیا رام‘ اور ’لے کر رہیں گے رام مندر‘ کے عزم کے ساتھ سڑکوں پر نکلا۔ نتیجہ کیا ہوا، اس سے سب واقف ہیں۔ اس کا بھگتان ’ملت‘ آج تک بھگت رہی ہے۔
دراصل بی جے پی کی حکمت عملی ہی یہی رہی ہے کہ پہلے مسلمان کو شرعی معاملات پر چھیڑو تاکہ وہ جذبات میں سڑکوں پر اترے۔ جب وہ مذہبی نعروں کے ساتھ شور مچائے تو ہندوؤں کو یہ باور کراؤ کہ یہ (مسلمان) ہندو دھرم کے لئے دشمن اور خطرہ ہیں۔ جب مسلمان بابری مسجد کی مخالفت میں جان دینے کی بات کرے گا تو عام ہندو کو تو یہی لگے گا کہ یہ تو ’رام دشمن‘ ہیں۔ اب ہم کو بھی اپنے دھرم کی ’رکشا‘ میں کھڑا ہونا چاہیے۔ اور بس یہیں سے ہندو اپنے ’محافظ‘ بی جے پی کے پرچم تلے متحد اور اس کا ووٹ چناؤ میں بی جے پی کے حق میں۔ اس طرح مسلم قیادت کی غلطیوں نے بی جے پی کو بی جے پی بنا دیا۔ اب تو سب جانتے ہیں کہ ملک ہندو راشٹر بن چکا ہے۔
جب کوئی قوم لگاتار پٹنے لگتی ہے تو ایک دن وہ بھی آتا ہے کہ اس کی آنکھیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ سنہ 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ان سے مسلمانوں کی آنکھیں کھلنی شروع ہوئیں۔ ایک بڑے مسلم طبقے کو یہ سمجھ میں آنے لگا کہ اگر اب بھی وہی کیا جو بابری مسجد اور تین طلاق میں کیا تھا تو حشر اس سے بھی زیادہ برا ہوگا۔ چنانچہ جذباتی مسلم قائدین، جس میں بڑی تعداد علماء کی تھی، وہ مسلم عوام میں مقبولیت کھونے لگی۔ کیونکہ مسلمانوں کو مسجد ملی اور نہ ہی تین طلاق کا حق رہا، اور نقصان جو ہوا وہ سب پہ ظاہر تھا۔ چنانچہ ایسی قیادت سے مسلم عوام گریز کرنے لگی۔ قائدین تو عوام سے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں۔ چنانچہ اب انھوں نے چولا بدل لیا اور جذبات سے گریز کرنے لگے اور سڑکوں پر نہ اترنے کی باتیں شروع کر دیں۔
الغرض کچھ بھی ہو، کچھ ہوش کے ناخن تو لیے۔ لب و لباب یہ کہ قائدین کہیں یا نہ کہیں، عقل مندی اسی میں ہے کہ ہر صورت حال میں سڑکوں پر اترنے سے گریز کریں۔ اور اگر اب بھی ہوش نہیں آیا تو اب جواب دنگے ہیں، بلڈوزر ہے۔