شاہی مسجد باغ عام میں ڈاکٹر مولانا احسن بن محمد الحمومی کا خطاب
حیدرآباد، 28 جون (پریس نوٹ) مولانا ڈاکٹر حافظ احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد، باغ عام نے اپنے بیان میں کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ علما ء قاتلوں اور قتل کے خلاف بولیں؛ لیکن علماء کے بیانوں میں ایک فیصد بھی قتل کرنے یا اقدام قتل میں ملوث افراد شریک نہیں ہوتے۔ وہ تو عام آدمیوں کے درمیان اور سماج میں رہتے ہیں۔ پورا سماج ان قاتلوں کا بائیکاٹ کرے۔ کوئی لیڈر یا کوئی نامور شخصیت اپنی محفلوں میں ان قاتلوں کو جگہ نہ دیں۔ ان کو سرعام بے عزت کیا جائے۔ قرآن مجید کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ قاتل ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے، ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ اسلامی حکومت میں قتل کی سزا قتل ہے۔ قاتل ایک انسان کا نہیں پوری انسانیت کا قاتل ہے۔ اے قاتل کے گھر والو! اگر تمہاری زندگیاں خراب نہ ہو اور زندگی اجیرن نہ بنے تو تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے رشتہ دار قاتل کو دھکے دے کر اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔ آخر ہمارے معاشرہ میں یہ کیا ہوگیا ہے کہ صبح اٹھو تو قتل کی واردات اور شام ہوئی تو قتل کی کہانی….! آخر سماج اور میڈیا کے سامنے یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ کیسے خاموش رہتا ہے۔ گھر کے افراد، محلے کے لوگ، محلہ کمیٹی، مقامی لیڈر اور میڈیا سب جانتے ہیںکہ فلاں فلاں میں آپسی رقابت اور دشمنی چل رہی ہے؛لیکن وہ سب خاموش رہتے ہیں۔ محلے والی سطح پر صلح کمیٹیاں بنائی جائے۔ ہر مکتبہ فکر، تمام جماعتوں اور میڈیا کو یہ کام کرنا ہوگا، سول سوسائٹی اگر وقت کی حکومت کو بدل سکتی ہے تو یہ مڈر مافیا کو کیوں نہیں بدل سکتی ہے۔ قتل کے خلاف اجتماعی کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔ قاتل کو کبھی اپنی سوسائٹی میں برداشت مت کیجئے، عذاب آئے گا تو سب کو ڈبو لے گا۔ قاتل کو اپنے محلے سے نکال دیجئے اگرچہ کہ وہ اپنا سگا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ لوگو! اپنے سماج پر نظر ڈالو اور اگر تمہیں اپنے سماج میں یہ باتیں نظر آئیں تو خبردار! اللہ تم پر بڑی بڑی بلائیں نازل کرے گا۔ اللہ ان کو طرح طرح کے عذاب دیں گے۔ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا کہ یہ کونسے عذاب ہوں گے؟ تو حضورؐ نے فرمایا کہ ان پر ظالم بادشاہ مسلط ہوگا، جو ان پر ظلم کرے گا۔ تمہارے یہاں جرمانے (ٹیکس) میں اضافہ ہوگا۔ اللہ بارش کو کم کریں گے اور قحط سالی ہوگی۔ زلزلے آئیں گے۔ لوگوں کی اچانک موت واقع ہوگی۔ وبائی بیماریاں پھیلے گی، جنگیں اور فتنے عام ہوں گے۔ اس طویل حدیث کا مختلف کتابوں میں ذکر ہے۔