قانون حق تعلیم کے دائرہ میں اقلیتی اداروں کو شامل نہ کرنا ترقی سے محروم رکھنے کے مترادف

   

سپریم کورٹ میں مقدمہ کے دوران تعلیم سے استثنیٰ رکھنے پر استفسار
حیدرآباد۔3 ۔ ستمبر ۔ (سیاست نیوز) قانون حق تعلیم کے دائرہ میں اقلیتی موقف کے حامل تعلیمی اداروں کو شامل نہ کیا جانا جامع تعلیمی ترقی سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ نے قانون حق تعلیم کے سلسلہ میں زیر دوراں ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران 2014 کے ایک مقدمہ کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آخر کیوں اقلیتی موقف کے حامل تعلیمی اداروں کو قانون حق تعلیم سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے!سپریم کورٹ کی بنچ نے اس مقدمہ کی سماعت کے دوران اقلیتی تعلیمی اداروں کو قانون حق تعلیم کے دائرہ میں شامل نہ رکھے جانے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کو چیف جسٹس کی بنچ سے رجوع کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی ہے کہ اسے وسیع بنچ سے رجوع کیا جائے تاکہ اس معاملہ میں واضح احکام جاری کئے جاسکیں کیونکہ سپریم کورٹ نے ہی سال 2014 میں دیئے گئے اپنے ایک فیصلہ کے دوران اقلیتی تعلیمی اداروں کو قانون حق تعلیم کے دائرہ میں شامل رکھنے سے انکار کرتے ہوئے احکام جاری کئے تھے۔ 2014 کے اس فیصلہ پر سپریم کورٹ کی موجودہ بنچ نے نظرثانی کی ضرورت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آخر کیوں اقلیتی اداروں کو قانون حق تعلیم کے دائرہ میں شامل نہیں رکھا گیا ہے۔ عدالت نے مذکورہ مقدمہ میں سماعت کے دوران کہا کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو قانون حق تعلیم کے دائرہ میں شامل نہ کیا جانا دراصل جامع تعلیمی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہے۔سپریم کورٹ نے غریب مستحق طلبہ کو بنیادی تعلیم کی فراہمی کے معاملہ میں اقلیتی اداروں کو شامل نہ کئے جانے کو انہیں معیاری تعلیم سے محروم کرنے کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے ہی یہ فیصلہ دیا ہے تو ایسی صورت میں اسے چیف جسٹس آف انڈیا کی بنچ سے رجوع کرتے ہوئے وسیع بنچ کی تشکیل کے ذریعہ معاملہ کا قطعی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اسی لئے بنچ نے اقلیتی تعلیمی اداروں کو قانون حق تعلیم کے دائرہ میں شامل نہ کئے جانے کے معاملہ کو چیف جسٹس سے رجوع کردیا ہے۔3