قانون سے کھلواڑانصاف تو ہوکر رہے گا

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

عدالتیں اس لئے قائم کی جاتی ہیں تاکہ قانون کے مطابق انصاف رسانی کو یقینی بنایا جائے۔ عوام کو انصاف دلایا جائے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے، بعض مرتبہ انصاف ٹھوکر کھاسکتا ہے لیکن ہندوستان میں مدعیان ہی نجی طور پر یہ امید کرسکتے ہیں کہ اگر وہ اس دشوار گذار راہ پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں تو پھر انہیں انصاف ملے گا اور عملی طور پر اس دیباچے کے ساتھ راقم ایک ایسے مقدمہ کے بارے میں بتانا چاہے گا جس نے سارے ملک کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرلی ہے اور سیاسی تقسیم کے دونوں جانب جذبات کو زبردست ہوا دی ہے۔ فریقین اسی مقدمہ کے بارے میں اپنے اپنے طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کررہے ہیں۔ چلئے آپ کو اس مقدمہ کے بارے میں بتاتا ہوں۔
23 مارچ 2023 کو گجرات کے ایک جمسٹریٹ نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو ہتک عزت کے ایک مقدمہ میں (تعذیرات ہند کی دفعہ 499) کے تحت خاطی پایا اور اس کی پاداش میں 2 سال قید کی سزا سنائی۔ فیصلہ اور سزا صادر کرنے کے بعد مجسٹریٹ نے راہول گاندھی کی سزا کو معطل کیا۔ اس کے بعد 24 مارچ 2023 کو یعنی صرف 24 گھنٹوں میں ہی مسٹر راہول گاندھی کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دے کر ان کی پارلیمانی نشست کو مخلوعہ قرار دے دیا۔ واضح رہے کہ راہول گاندھی پارلیمنٹ میں کیرالا کے پارلیمانی حلقہ وایاناڈ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ آخر مسٹر گاندھی نے ایسا کیا جرم کیا کہ انہیں دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ دراصل 13 اپریل 2019 کو راہول گاندھی نے کرناٹک کے کولار میں ایک انتخابی تقریر کی اور پھر 16 اپریل 2019 کو بی جے پی کے رکن اسمبلی مسٹر پرنیش مودی نے سورت گجرات کے ایک مجسٹریٹ کو عدالت میں شکایت دائر کی اور عدالت کو بتایا کہ راہول گاندھی نے ساری مودی سماج کو بدنام کیا ہے۔ پھر 7 مارچ 2022 کو شکایت کنندہ نے اپنی ہی شکایت پر گجرات ہائی کورٹ سے حکم التواء حاصل کیا۔ اب حالیہ عرصہ کے دوران اڈانی کی مالی بے قاعدگیوں سے متعلق ہیڈنبرگ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا ہوا اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 7 فروری 2023 کو راہول گاندھی نے اڈانی گروپ مسئلہ پر لوک سبھا میں زبردست تقریر کی۔ 16 فروری کو ہتک عزت مقدمہ دائر کرنے والے شکایت کنندہ نے گجرات ہائی کورٹ میں داخل درخواست سے دستبرداری اختیار کرلی اور پھر 21 فروری 2023 کو مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ کا دوبارہ آغاز ہوا۔ 17 مارچ 2023 کو مقدمہ کی سماعت اپنے اختتام کو پہنچی اور فیصلہ محفوظ کر دیا گیا اور سارے ملک نے دیکھا کہ 23 مارچ 2023 کو مجسٹریٹ نے 168 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا جس میں مسٹر راہول گاندھی کو ہتک عزت کا مرتکب پایا اور دو سال قید کی سزا سنائی لیکن اس کے فوری بعد مجسٹریٹ نے سزا کو معطل رکھا۔ 24 مارچ 2023 کو لوک سبھا سکریٹریٹ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے ذریعہ مسٹر گاندھی کی لوک سبھا رکنیت ختم کردی گئی یعنی انہیں نااہل قرار دیا گیا۔ ایک ایسا کیس جو تین برسوں تک چلتا رہا، سماعت کے لئے تاریخ پر تاریخ دی جاتی رہی۔ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ ہنگامی بنیادوں پر اس کی سماعت ہوئی اور فوری فیصلہ محفوظ کردیا گیا۔ دو سال قید کی سزا بھی سنا دی گئی اور سزا کو 30 دن کے لئے معطل بھی رکھا گیا۔ معمہ یہ ہیکہ اس قدر عجلت کی کیا ضرورت تھی ایسی کیا ایمرجنسی پیش آگئی کہ مقدمہ کا فیصلہ فوری طور پر سنا دیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آحر شکایت گذار نے اپنی شکایت کی سماعت پر حکم التواء کیوں حاصل کیا اور جب راہول گاندھی نے پارلیمنٹ میں اڈانی گروپ سے جڑی بے قاعدگیوں کو طشت ازہام کرنا شروع کیا، وزیر اعظم اور اڈانی کے رشتوں پر سوالات اٹھائے۔ لوک سبھا میں ان کے خطاب کے 9 دن بعد اپنی درخواست واپس کیوں لی اور رکے ہوئے مقدمہ کی فوری دوبارہ آغاز کی خواہش کیوں کی۔
بدنام کون ہوا… ؟
شکایت کنندہ نے الزام عائد کیا کہ مودی برادری ؍ ذات جس سے وہ تعلق رکھتا ہے راہول گاندھی کے بیان سے بدنام ہوئی۔ میں نہیں جانتا کہ آیا ’’مودی‘‘ نام کی کوئی کمیونٹی ہے بھی یا نہیں اور اگر کسی کی کنیت مودی ہے تو وہ ایک کمیونٹی یا ذات سے تعلق رکھتا ہے؟ انڈین اکسپریس نے (28 مارچ 2023) کو اپنی ایک رپورٹ میں بڑی خوبصورتی سے سمجھایا کہ لفظ مودی کسی مخصوص کمیونٹی یا ذات کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ خود گجرات جیسی ریاست میں مودی کی کنیت یا Surname ہندو، مسلمان اور پارسی سب استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پوربندر سے تعلق رکھنے والے ویشنوا (بنیوں) کھار واس (ماہی گیروں) اور لوہاناس (تاجرین کی کمیونٹی) والے بھی مودی کنیت رکھتے ہیں۔ انگریزی کے مذکورہ موقر اخبار نے اپنی تحقیق میں یہ بھی پایا کہ مرکزی حکومت کی جو او بی سیز کی فہرست ہے اس میں مودی نام کی کوئی کمیونٹی یا ذات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بہار اور راجستھان سے متعلق مرکزی حکومت کی فہرست میں بھی لفظ مودی یا مودی نام کی کوئی کمیونٹی اور ذات نہیں ہے۔ گجرات کے لئے مرکز کی جو فہرست ہے اس میں ’’مودی گھانجی‘‘ کمیونٹی ؍ ذات موجود ہے۔ میرے لئے جس نے 6 دہے قبل حلف اٹھایا ہے ذات پات کو نہیں مانتا اور جس انداز میں یہ کہا جارہا ہے کہ اور دلائل دیئے جارہے ہیں کہ ایک کمیونٹی؍ ذات (مبینہ طور پر 13 کروڑ لوگوں کو) بدنام کیا جارہا ہے ان سے تو سر چکرا رہا ہے۔
سزا اور سزا کی معطلی: ۔ شکایت کے مطابق یہ دراصل بہتان اور بے بنیاد الزام کا مقدمہ ہے اور اس مقدمہ میں خاطی پائے جانے والے کو تعذیرات ہند کی دفعہ 500 کے تحت دو سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے یا پھر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے یا سزا اور جرمانہ دونوں بھی دیئے جاسکے ہیںعائد کئے جاسکتے ہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ 1860 سے جبکہ آئی پی سی نافذ العمل ہوا ایسا کوئی کیس نہیں جس میں اعظم ترین سزا 2 سال دی گئی ہو۔ عام طور پر ایسے مقدمات میں جہاں 3 سال یا اس سے کم سزا سنائی جاتی ہے تو ان مقدمات میں ملزم کو ضمانت دے دی جاتی ہے تاکہ وہ تحت کی عدالت سے خود کو خاطی قرار دیئے جانے اور سزا سنائے جانے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے راحت حاصل کرسکے۔ تاہم راہول گاندھی کے مقدمہ میں سزا سنائے جانے کے چند منٹ میں ہی مجسٹریٹ نے خود سزا کو معطل رکھا۔ قانون عوامی نمائندگی 1951 میں واضح طور پر کہا گیا ہیکہ اگر کسی شخص کو کسی جرم کا مرتکب قرار دیا جاکر، کم از کم دو سال سزا دی جاتی ہے تو وہ خاطی قرار دیئے جانے کی تاریخ سے نااہل ہوگا لیکن مسٹر گاندھی کے مقدمہ میں اگرچہ انہیں جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے لیکن اس تاریخ کے ساتھ ہی سزا پر عمل آوری نہیں کی گئی بلکہ عملاً اسے معطل رکھا گیا ہے اس لئے کیا وہ 23 مارچ 2023 کو نااہل ہونے کے سزاوار ہوئے۔ یہ ایسا سوال ہے جسے کئی لوگوں نے اٹھایا اور اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں ان لوگوں کو جواب ملا یا نہ ملا ایک بات ضرور ہیکہ راہول گاندھی کو لوک سبھا سکریٹریٹ نے نااہل قرار دیا۔ مسٹر راہول گاندھی کو نا اہل قرار دینے میں بڑی عجلت سے کام لیا گیا۔ اس بارے میں سابق سکریٹری جنرل لوک سبھا مسٹر پی ڈی ٹی اچاری اور وسرے ماہرین نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہیکہ اس معاملہ کو صدر جمہوریہ سے رجوع کیا جانا چاہئے اور اس سے پہلے الیکشن کمیشن کی رائے حاصل کی جانی چاہئے تھی۔ ایسا نہیں کیا گیا تو پھر اس بارے میں فیصلہ کس نے لیا؟ اسپیکر نے لیا یا پھر لوک سبھا سکریٹریٹ نے لیا کوئی نہیں جانتا۔