خلاف لب کشائی کا مطلب کم حب الوطنی نہیں: جسٹس دیپک مشرا
احمد آباد8 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) پرالین پبلک چاریٹیبل ٹرسٹ احمد اباد کے ایک ورکشاپ میں مخاطب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس ‘جسٹس دیپک مشرا نے ہندوستانی قانون غداری اور آزادی حق اظہار کے موضوع پر کہا کہ گزشتہ چند سالوں سے غداری کے کیسس میں اضافہ ہوا ہے اور سپریم کورٹ دستوری بنچ کے رہنمایانہ خطوط کے برخلاف پولیس بے قصور افراد کو گرفتار کر رہی ہے ۔ پولیس محض غداری کے الزام میں ان کو گرفتار کر کے ہراساں کر رہی ہے اور جس طرح سے سکشن 124A کی دفعات کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ، اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ کہیں اس پر از سر نو غور کی ضرورت تو نہیں ۔ حق اظہار خیال دستور کی جانب سے ہر شخص کو دیا گیا ہے جو قانون غداری پر فوقیت رکھتا ہے ۔ جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ گفتگو کا فن خود مفقود ہوتا جارہا ہے کیونکہ مختلف موضوعات پر اصول پسندانہ بحث اور مباحثوں کا طور طریقہ زوال پذیر ہے ۔ اب صرف چیخ و پکار اور کیچڑ اچھالنے کا عمل رہ گیا ہے ۔ بدقسمتی سے آپ چاہیں مجھ سے متفق ہوں یا مخالف ہوں اس طرح کے مباحث سے اجتناب کرنا چاہتے ہیں یا پھر آپ ملک دشمن اور مخالف قومیت قرار دیئے جائینگے ۔ کسی سیکولر ملک میں ہر عقیدے پر مذہبی چھاپ کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔
یہاں تک کہ ہمارے دستور نے ایک ملحد کو بھی مساوی اختیارات عطا کئے ہیں اور دستور کے مطابق ہر شخص کو اپنے عقیدہ کی اور ضمیر کی مکمل آزادی دی گئی ہے اور سوائے دستوری حد بندیوں کے کسی جانب سے رکاوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے اختلاف رائے کی اہمیت پر کہا کہ جب تک کوئی شخص قانون شکنی کا مرتکب نہ ہو یا پھر فرقو ں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا سبب نہ بنا ہو اس کو دوسرے شہری سے عدم اتفاق یا پھر موجودہ حکومت کے بارے میں عدم اتفاق کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے 1976 ء کے ADM جبل پور وشوکانت شکلا کے کیس کا جسٹس کھنہ کے اختلاف رائے فیصلہ کا حولہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ فیصلہ اکثریتی رائے کیلئے بڑی قدر و قیمت کا حامل تھا۔ دستور کی جانب سے حق اختلاف رائے جو عطا کیا گیا وہ ا ہمیت کا حامل ہے اور یہ جب تک کہ کوئی شخص قانون شکنی یا دو فرقوں کے درمیان خلیج پاٹنے کا سبب ہو ،اس سے ہٹ کر ہر شہری کو دوسرے شہری یا حکومت رائج الوقت سے اختلاف رکھنے کا حق دستور نے دیا ہے ۔ بہترین مثال ADM جبل پور کیس میں ایچ آر کھنہ کا وہ فیصلہ ہے ، جس میں اکثریتی رائے پر حق عدم اتفاق کو فوقیت دی گئی ہے اور یہ ایک جج کا بے باکانہ فیصلہ تھا جس نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق نڈر ہوکر اپنے فرائض کی تکمیل کا حلف لیا تھا۔