…… شہریت ترمیمی قانون کیخلاف عرضیوں پر سپریم کورٹ کا جواب ……
نئی دہلی ۔ 18 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کو فیصلہ کیا کہ شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) کے دستوری جواز کا جائزہ لیں گے لیکن عدالت نے نئے قانون کے عمل پر فوری حکم التوا سے انکار کردیا۔ نیا مرممہ قانون ہندو، سکھ، بدھسٹ، عیسائی، جین اور پارسی برادریوں سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم تارکین وطن کو شہریت عطا کرنے کی گنجائش فراہم کرتا ہے، جو اس ملک کو 31 ڈسمبر 2014ء سے قبل یا اس تاریخ کو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوں۔ فاضل عدالت نے مرکز کو نوٹس جاری کی اور سی اے اے کوچیلنج کرنے والی مختلف عرضیوں پر آئندہ سال جنوری کے دوسرے ہفتہ تک اس سے جواب مانگا (متعلقہ خبر صفحہ 3پر)۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس بی اے گوائی اور جسٹس سوریاکانت پر مشتمل بنچ نے انڈین یونین مسلم لیگ اور کانگریس لیڈر جئے رام رمیش کے بشمول 59 عرضیوں کی ساعت آئندہ سال 22 جنوری کو مقرر کردی۔ بنچ نے وکیل اشونی اپادھیائے کے اس بیان سے اتفاق بھی کیا کہ عام لوگوں کو نئے قانون کے مقصد اور مواد کے تعلق سے آگاہ کیا جانا چاہئے، اور مرکز کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال سے کہا کہ اس قانون سے شہریوں کو واقف کرانے کیلئے آڈیو ۔ ویژول میڈیم کو استعمال کرنے پر غور کریں۔ وینو گوپال نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ حکومت کی جانب سے ضروری اقدام کیا جائے گا۔ سماعت کے دوران درخواست گذاروں کی پیروی کرنے والے بعض وکلاء نے نئے ترمیم شدہ قانون پر عومل کو روک دینے کی خواہش کی۔ آسام سے تعلق رکھنے والے ایک عرضی گذار کے وکیل نے کہا کہ اسے عمل میں لانے کی اجازت مت دیجئے۔ شمال مشرق میں پانچ اسٹوڈنٹس کی جان جاچکی ہے۔ اٹارنی جنرل نے اس بیان کی مخالفت کی اور کہاکہ اس معاملہ میں ایک دو نہیں بلکہ چار فیصلے ہیں جن میں کہا گیا کہ کوئی قانون کا اعلان ہوجانے کے بعد اس پر حکم التواء جاری نہیں کیا جاسکتا۔
بنچ نے کہا کہ ہم حکم التوا جاری نہیں کررہے ہیں اور یہ بھی کہا کہ نئے قانون پر عمل کو روکنے کیلئے بحث کو سماعت کی اگلی تاریخ 22 جنوری پر ٹالا جاسکتا ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون جنہوں نے ایک فریق کی نمائندگی کی، انہوں نے کہا کہ سی اے اے پر عمل کو روکنے کی استدعا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ نافذ العمل نہیں ہوا ہے جیسا کہ اس قانون کے تحت فوائد وضع کرنا جیسی کئی چیزیں ابھی کی جانی ہیں۔ ایک اور سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے دھون کے بیان سے اتفاق کیا اور کہا کہ ہمیں فی الحال کچھ نہیں کہنا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ جو نئے قانون کے جواز کو چیلنج کرنے والوں میں سے ہے، اس نے اپنی عرضی میں کہا کہ یہ قانون بنیادی حق مساوات کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کا مقصد مذہب کی اساس پر مخصوص طبقہ کو خارج کرتے ہوئے دیگر غیرقانونی تارکین وطن کو شہریت عطا کرنا ہے۔