جنیتا بھٹا چاریہ
مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات پر سارے ملک کی توجہ مرکوز تھی، جھارکھنڈکے 81 اور مہاراشٹرا کے 288 اسمبلی حلقوں کیلئے بالترتیب دو اور ایک مرحلہ کے تحت رائے دہی کا انعقاد عمل میں آیا ( جھارکھنڈ میں 13 اور 20 نومبر کو اور مہاراشٹرا میں 20 نومبر کو عوام نے اپنے حق رائے دہی سے استفادہ کیا ) اور 23 نومبر کو نتائج جاری کئے گئے۔ جھارکھنڈ میں بی جے پی رہنماؤں خاص طور پر چیف منسٹر آسام ہیمنت بسواس سرما کے دعوؤں کے برعکس نتائج برآمد ہوئے جبکہ مہاراشٹرا کی 288 نشستوں میں سے بی جے پی کی زیر قیادت مہا یوتی نے 235 حلقوں میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سب کو حیرت زدہ کردیا (نتائج کے بعد کانگریس، شیوسینا ( ادھو ) اور این سی پی ( شرد پوار گروپ ) نے کئی ایک شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کا الزام بھی شامل ہے تاہم الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اپوزیشن کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا )۔ بہر حال ہم بات کررہے تھے جھارکھنڈ کی جہاں پر ہیمنت سورین کی جھارکھنڈ مکتی مورچہ نے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے قائد اپوزیشن راہول گاندھی، صدر کانگریس ملکارجن کھرگے ، چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی، صدر سماج وادی پارٹی اکھلیش یادو ، آر جے ڈی لیڈر و سابق ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادو، سابق چیف منسٹر دہلی و عام آدمی پارٹی لیڈر اروند کجریوال و دیگر کی موجودگی میں اپنے عہدہ کا حلف بھی لے لیا۔ اس طرح انہوں نے چوتھی مرتبہ بحیثیت چیف منسٹر عہدہ اور رازداری کا حلف لینے کا اعزاز حاصل کیا۔
آپ کو بتادیں کہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی زیر قیادت انڈیا بلاک نے 81 میں سے 56 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جن میں 27 ایسے حلقے ہیں جو درج فہرست قبائیل سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کیلئے محفوظ تھے۔ اس طرح مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کو دوبارہ قبائیلی پٹی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ریاست جھارکھنڈ کے 81 اسمبلی حلقوں میں سے 28 حلقے درج فہرست قبائیل کیلئے محفوظ ہیں جو ریاست کی جملہ نشستوں کا 35 فیصد حصہ بنتے ہیں۔2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی میں قبائیلیوں کی آبادی 26.2 فیصد ہے اور ریاست کے جملہ رائے دہندوں میں قبائیلی رائے دہندوں کی تعداد 28 فیصد ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ کے مطابق 2024 کے انتخابات میں بی جے پی قبائیلیوں کیلئے محفوظ نشستوں میں سے صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل کرسکی اور اس کیلئے اسے سابق چیف منسٹر چمپائی سورن کا شکرگذار ہونا چاہیئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہیمنت سورین کی گرفتاری اور جیل بھیجے جانے کے پیش نظر چمپائی سورین کو ہیمنت سورین کی جگہ چیف منسٹر مقرر کیا گیا تھا۔
مسٹر ہیمنت سورین 2019 میں عہدہ چیف منسٹر پر فائز ہوئے تھے۔ ہیمنت سورین اور ان کے حامیوں کے ساتھ ساتھ انڈیا بلاک کے لیڈروں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ہیمنت سورین کو گرفتار کیا گیا اور اس کیلئے ای ڈی ( انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ) کو استعمال کیا گیا۔ اس مرتبہ مسٹر چمپائی سورین نے بی جے پی کے ٹکٹ پر ایس ٹی محفوظ نشست SERAI KELA سے مقابلہ کیا اور 20447 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی جبکہ 2019 میں چمپائی سورین نے اسی حلقہ سے جے ایم ایم امیدوار کی حیثیت سے15667 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی جبکہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں انہیں صرف 1115 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی ملی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چمپائی سورین کے وفادار رائے دہندے ہنوز ان کے ساتھ ہیں۔
جہاں تک ہیمنت سورین کی کامیابی کا سوال ہے انہوں نے BARHAIT قبائیلیوں کیلئے محفوظ حلقہ سے شاندار کامیابی حاصل کی۔ 2019 میں انہیں 25740 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی ملی تھی، اب کی مرتبہ انہوں نے 39791 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی درج کروائی۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں مسٹر ہیمنت سورین نے بی جے پی امیدوار کو24087 ووٹوں کی اکثریت سے ہرایا تھا۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ 2019 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 28 قبائیلی نشستوں میں سے دو نشستوں پر کامیابی ملی تھی جبکہ جھارکھنڈ مکتہ مورچہ نے 19 ، کانگریس نے 6 حلقوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے تھے۔ 30 نشستوں کے ساتھ جے ایم ایم نے 30 ، کانگریس( 16 سیٹیں ) اور آر جے ڈی (ایک سیٹ ) نے ساتھ ملکر اتحادی حکومت بنائی تھی۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 2000 میں بہار سے جھار کھنڈ کو نکال کر ایک نئی ریاست تشکیل دی گئی اس کے بعد سے صرف بی جے پی کے رگھویر داس کو چھوڑ کر کسی اور چیف منسٹر نے اپنی معیاد مکمل نہیں کی۔جھارکھنڈ وہ ریاست ہے جہاں آزاد رکن اسمبلی مدھو کوڈا ستمبر 2006 میں عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہوئے اور ایک سال تک چیف منسٹر رہے، کئی ایک سیاسی جماعتوں نے ان کی تائید کی اور اُن جماعتوں نے مدھو کوڈا کی ایک محفوظ امیدوار کے طور پر تائید و حمایت کی۔اگرچہ ریاست میں اکثر عدم استحکام کی سیاست چھائی رہی لیکن قبائیلی علاقوں میں لاکھ کوششوں کے باوجود بی جے پی کی حالت مسلسل خراب ہوتی رہی۔
قبائیلی علاقوں میں بی جے پی امیدواروں کے مظاہرہ یا کارکردگی کا جہاں تک سوال ہے سال 2005 میں ان حلقوں سے اس کے 9 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں ان کی تعداد بڑھ کر 11 ہوگئی لیکن 2019 میں قبائیلیوں کیلئے محفوظ حلقوں سے بی جے پی کے صرف دو اُمیدوار کامیاب ہوئے۔ جاریہ سال کے اوائل میں منعقد ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی قبائیلیوں کیلئے محفوظ تمام 5 نشتوں پر کامیابی حاصل نہ کرسکی اور اہم بات یہ ہے کہ ہیمنت سورین کی گرفتاری کے چار ماہ بعد پارلیمانی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا جس سے قبائیلیوں کے ووٹوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی قیادت نے قبائیلیوں کو اپنی جانب راغب کرنے اور ان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے 2023 میں بابو لال مرانڈی کو ریاست میں پارٹی سربراہ مقرر کیا۔ مسٹر مرانڈی ، ہیمنت سورین کی طرح SANTHAL قبائیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرانڈی کو ریاست میں بی جے پی کا صدر بنانے کے باوجوداُسے ریاست میں کوئی مدد نہیں ملی۔ اکثر جھارکھنڈ کے ابتدائی برسوں میں نمایاں خدمات کیلئے ان کی ستائش کی جاتی ہے لیکن چیف منسٹر کی حیثیت سے انہیں اپنی اتحادی جماعتوں کو ساتھ رکھنے میں ناکام قرار دیا جاتا ہے جس کے باعث ہی 2003 میں ان کی جگہ پارٹی قیادت نے ارجن منڈا کو لایا۔ 2005 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ارجن منڈا برقرار رہے تب بابو لال مرانڈی نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ مرانڈی نے جھارکھنڈ وکاس مورچہ تشکیل دیا اور 25 نشستوں پر امیدوار میدان میں اُتارے۔ 2009 میں 11 حلقوں میں کامیابی حاصل کی اور پھر آہستہ آہستہ ان کا سیاسی اثر ختم ہونے لگا اور وہ دوبارہ بی جے پی میں واپس ہوگئے۔ حالیہ نتائج سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حامیوں کا اعتماد دوبارہ حاصل نہ کرسکے۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر بی جے پی نے ’’ دراندازوں ‘‘ کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور پارٹی لیڈروں نے ہیمنت سورین حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ بنگلہ دیشی دراندازوں کو ریاست میں داخل ہونے کی اجازت دے رہی ہے، قبائیلیوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق سلب ہورہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی یہ حکمت عملی جھارکھنڈ میں پوری طرح ناکام رہی۔