پرانے شہر کے ماحول میں بگاڑ، روڈی شیٹرس کی کونسلنگ بے سود، پولیس کی ناکامی یا چشم پوشی
محمد علیم الدین
حیدرآباد : شہر حیدرآباد میں آئے دن پیش آرہی قتل کی وارداتیں اور آپسی خصومت کے درمیان ہورہی ہلاکتیں مسلم معاشرے میں لمحہ فکر بنی ہوئی ہیں۔ قتل جوابی قتل کے ان واقعات نے شہر کے پرامن ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ تاہم آئے دن پیش آرہی جرائم کی ان وارداتوں کی روک تھام میں پولیس کی پہل میں ناکامی اور ناکام ثابت ہورہی ہے۔ روڈی شیٹرس کو قابو میں رکھنے اور منظم جرائم کی روک تھام میں سٹی پولیس پر ناکامی کے الزامات پائے جاتے ہیں۔ آئے دن کونسلنگ کے باوجود روڈی شیٹرس کی حرکتیں اور قتل کی وارداتیں عام شہریوں کی سلامتی پر سوال اٹھانے لگی ہیں۔ ذراسی غیرسماجی حرکت اور کسی بھی سازش کا قبل ازوقت پتہ چلانے میں ماہر سٹی پولیس کے ہونہار آفیسروں کے دامن پر یہ واقعات ناکامی کا دھبہ لگارہے ہیں یا پھر ایسا تو نہیں کہ پولیس کی جانب سے کسی ایک گرو کو مبینہ ڈھیل دینا ہی اس طرح کے واقعات کا سبب بن رہا ہے۔ ایسی الزامات میں ان دنوں سٹی پولیس گھر گئی ہے۔ شہر میں قتل کے کسی واقعہ کے پیش آنے کے بعد اس کا جوابی حملہ بھی ایک رواج کے طور پر بن گیا ہے۔ گذشتہ دنوں فرو ڈان کے قتل کا واقعہ ابھی تازہ ہی تھا کہ آج شام شہریان حیدرآباد ایک اور قتل کے واقعہ سے پریشان ہوگئے۔ انسانی اقدار و قوم و ملت کی پاسداری، اخوت اور بھائی چارگی کا تو کوئی مطلب ہی نہیں رہا۔ ان وارداتوں اور ایک دوسرے کے قتل میں برتری بدلہ لینے کی آگ نے ساری قوم کو شرمسار اور پریشان کرکے رکھ دیا اور اخوت و بھائی چارے کا مطلب ہی بدل دیا۔ مسلم نوجوان جو مبینہ طور پر روڈی شیٹر بن گئے، ایک دوسرے کے قتل میں بازی مارنے کے علاوہ کسی اور بات کو ترجیح نہیں دیتے۔ سٹی پولیس کا علاقہ ساوتھ زون اور ویسٹ زون ایسی سرگرمیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ٹولیوں کے سرداروں کی سرگرمیاں نوجوان نسل کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا رجحان اور سب سے زیادہ ’’پہلوان‘‘ کا لفظ ان دنوں فیشن بن گیا ہے۔ مذہبی قائدین، علماء و مشائخین کو فالو کرنے میں دلچسپی دکھانے والی قوم اب روڈی شیٹرس (ٹولیوں کے سردار) بھائی اور پہلوان کی تقلید کو اپنا شیوا اور فیشن تصور کرنے لگے ہیں۔ گلی محلہ میں برتری، معاملات میں مداخلت، معاملہ فہمی، ناجائز قبضہ، جبراً وصولی ان حالات میں نوجوان نسل بری طرح پھنستی جارہی ہے۔ تاہم انہیں اس برائی میں جھونکنے والے ٹولیوں کے سردار موجود ہیں لیکن اس برائی سے نکالنے والے قوم کے سالار کوئی نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر آئے دن پیش آرہے ایسے واقعات پر مختلف گوشوں سے مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں۔ چاندی محمد اور اس کے ساتھی کا قتل، کالے فیروز کا قتل، فرو ڈان کا قتل اور پھر جابر کا ان سارے واقعات میں ایک بات تو واضح ظاہر ہوتی ہیکہ قتل کا جوابی وار تھا۔ کہیں شاہ نور قتل کا بدلہ تو کہیں واحد کے قاتل کا قتل، کہیں رقمی لین دین اور ریئل اسٹیٹ کاروبار کی خصومت تو کہیں جبراً وصولی اور برتری کیلئے اور جوابی قتل، روڈی شیٹرس اور منظم انداز میں جرائم کو انجام دینے والی ٹولیاں اور ٹولیوں کے سرداروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں کیا پولیس واقعی ناکام ہورہی ہے۔ ویسٹ زون پرانے شہر سے زیادہ حساس مانا جاتا ہے جہاں ایک پولیس اسٹیشن جو رقبہ کے لحاظ سے چھوٹا لیکن جرائم کی ٹولیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ویسٹ زون اور پرانے شہر کے سبھی پولیس اسٹیشنوں میں چند ٹولیوں کے روڈی سرداروں اور چوروں کے شاگردوں کا اثر دیکھا گیا ہے۔ ایسے حالات میں پولیس کے ساتھ ساتھ سماج کے ذمہ دار افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ وہ اپنی ملی، سماجی، مذہبی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایسے واقعات کے تدارک کیلئے مؤثر اقدامات کریں اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا فرض نبھائیں۔