قتیلؔ…کیسے بھلائیں ہم اہل درد اسے…

   

محمد مبشرالدین خرم
ظہیر الدین علی خان کی زندگی کے متعلق جو سطور تحریر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں شائد ان سے بہت کم لوگ واقف ہیں ۔ظہیر صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ؤںسے عوام و خواص کی بڑی تعداد واقف ہی نہیں تھی کیونکہ وہ خود کو پس پردہ رکھتے ہوئے قوم وملت کے وہ کام انجام دیا کرتے جن پر کوئی غور تک نہیں کرتا۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی خدمات کا بدل انہیں اس دنیا میں حاصل ہو اور نہ ہی انہیں کسی منصب و مرتبہ کی خواہش تھی بلکہ وہ ہر لمحہ ملت کی ترقی کے لئے راہیں تلاش کرنے اور نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا خواب لئے جدوجہد کرتے اور ظالم کو دندان شکن جواب دینے اور اسے ظلم سے روکنے جمہوری دائرہ میں ہر اختیار کا استعمال کرنے کے حق میں رہتے ۔ ظہیر صاحب جنہیں کئی لوگ ظہیر بھائی بھی کہتے ہر عمر کے لوگوں سے انتہائی عاجزی وانکساری سے پیش آتے اپنے ہم عمر اور اپنے سے بڑوں کو ’’بھائی ‘‘ اور اپنے سے کم عمر نوجوانوں اور بچوں کو ’’بابا‘‘ سے مخاطب کرتے خواہ وہ ان کے ملازم ہی کیوں نہ ہوں۔ان کے اخلاق و اوصاف حمیدہ کے علاوہ ان کے تخیل کی پرواز کا کوئی منکر نہیں ہوسکتا ۔ میں نے اپنی زندگی میں ظہیر الدین علی خان جیسا ’’مردم شناس ‘‘ کسی کو نہ پایا جو اپنے مزاج قلندرانہ کے ساتھ کسی نقصان پر بھی بس الحمدللہ کہتے ‘ اتنا ہی نہیں اگر کسی نے انہیں دھوکہ بھی دیا تو بس یہ کہتے کہ ’’بابا اپنی قسمت تو نہیں لے گیا‘‘ ۔ اللہ کا شکر ادا کرو اللہ نے اسے ہمارے آگے آشکار کردیا۔ وہ اپنی خدمات کا صلہ سوائے اللہ کے کسی سے طلب نہ کرتے۔
اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران کی 143 ویں آیت میں ارشاد فرماتے ہیں’’ اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر مرجائے (اس نے موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا ) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے اور جو آخرت میں طالب ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے اور ہم شکر گذاروں کو عنقریب(بہت اچھا) صلہ دیں گے۔‘‘ظہیر الدین علی خان نے اپنی زندگی میں جن نوجوانوں کو راستہ دکھایا اور ان میں حق گوئی کی جرأت پیدا کی ان میں کئی ایسے نوجوان ہیں جو دنیا بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور اپنی کامیاب زندگی گذار رہے ہیں لیکن کبھی ظہیر الدین علی خان نے ان پر کوئی احسان جتا یا اور نہ ہی انہیں اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی رہبری کا بدل چاہتے ہیں۔ایسے بے شمار نوجوان اور سماجی مصلح و جہدکارخود ظہیر صاحب کے انتقال کے بعد سامنے آئے جنہوں نے ظہیر صاحب کی مشفقانہ رہبری اور سرپرستی سے دنیا کو واقف کروایا۔ظہیر صاحب نے خود کبھی ان کا تذکرہ تک نہیں کیا تھا۔ انسان میںللہیت پیدا ہوجائے تو وہ منصب ولایت پر پہنچ جاتا ہے لیکن جب وہ للہیت سے گذر کراپنی حقیقت کو جان جاتا ہے تو اس وقت اس کی زندگی قلندرانہ ہوجاتی ہے اور ظہیر الدین علی خان کی للہیت اور خدمت سے تو سب ہی واقف تھے لیکن ان کی صفت قلندرانہ سے بہت کم لوگ واقف تھے جبکہ ان کی زندگی ایک ایسی سادہ کتاب تھی کہ اس کا ہر ورق سر ورق کی طرح عیاں تھا لیکن اس کھلی کتاب کو ہر شخص نے اپنی صلاحیت کے مطابق پڑھا ۔ ظہیر الدین علی خان کی زندگی کی گہرائی و گیرائی کو تحریر کرنے ایک مضمون یا کتاب کافی نہیں ہے بلکہ ان کی خدمات و احساسات کے علاوہ فکر امت کو قلمبند کرنے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔
گجرات فسادات اور راحت کاری
2002 گجرات فسادات کے بعد ادارۂ سیاست نے گجرات کی مختلف تنظیموں اور جمیعۃ علمائے ہند کے ساتھ مل کر راحت کاری کاموں کا فیصلہ کیا اور اس سلسلہ میں ادارہ کی جانب سے حیدرآباد سے فسادزدگان کی مدد کے لئے کارکن روانہ کئے گئے ۔ان کارکنوں میں ناچیز بھی شامل تھا ۔ 27ارکان پر مشتمل پہلے وفد نے راحت کاری کیمپوں کا جائزہ لے کرمتاثرین کی ضرورتوں اور زمینی حقائق کے متعلق تفصیلات سے انہیں واقف کروایا تو اسی وقت انہوں نے فیصلہ کیا تھاکہ احمد آباد کا سب سے بڑا راحت کاری کیمپ جو درگاہ حضرت شاہ عالم ؒ میں قائم کیا گیا تھا جہاں گجرات کے کئی اضلاع کے متاثرین تباہ حال میں پہنچے تھے اور ان پر فرقہ پرستوں کی جانب سے حملہ کیا گیا تو اس کیمپ کو بچانے جن لوگوں نے مقابلہ کرکے اپنا سب کچھ کھو دیا سب سے پہلے ان کے مکان تعمیر کئے جائیں اور اسی منصوبہ کے تحت ’’سیاست نگر‘‘ جو چنڈولہ تالاب کے قریب تھا بسایا گیا۔ گجراتی مسلمانوں میں تعلیم کے فقدان اور مسلمانوں کے معیاری تعلیمی ادارۂ جات نہ ہونے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے وہاں تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لانے کے علاوہ وہاں کے سرکردہ مسلمانوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ترغیب دی جس کے نتائج آج 20 سال بعد برآمد ہونے لگے ہیں اور مسلمانوں کے کئی تعلیمی ادارے قائم ہیں۔ فسادزدگان نے جب بتایا کہ جہاں ’’انار والا صاحب‘‘ ہوتے پولیس مسلمانوں پر گولی نہیں چلاتی اسی وقت ظہیر الدین علی خان نے مسلم نوجوانوں کو پولیس میں بھرتی کے لئے تربیت فراہم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر پولیس اسٹیشن میں کم از کم ایک مسلم نوجوان پولیس اہلکار ہونا چاہئے اور انہوں نے اندرون 10 برس اس نشانہ کو حاصل بھی کرلیا۔
تعلیمی میدان میںظہیر الدین علی خان
ملت کے تعلیمی اداروں کو عصری علوم سے آراستہ کرنے کی ان کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ شہر کے کئی سرکردہ تعلیمی ادارو ںمیں انہوں نے اپنے طور پر کمپیوٹر مراکز کا قیام عمل میں لاتے ہوئے انہیں عصری علوم سے مربوط کیا۔ انہوں نے خود کبھی کوئی تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا لیکن شہر حیدرآباد کو تعلیمی اداروں کے جال میں تبدیل کرنے کے علاوہ شہر کے نواحی علاقوں میں قائم کئے جانے والے انجنیئرنگ کالجس میں بہار‘ اترپردیش‘ اوڈیشہ ‘ بنگال کے علاوہ ملک کی پسماندہ ریاستوں کے مسلم نوجوانوں کو داخلہ دلواتے ہوئے ان کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ متحدہ ریاست آندھراپردیش میں جب اسکولوں کے ذمہ داروں نے بتایا کہ ایس ایس سی کے نتائج میں مسلم نوجوانوں کے نتائج بہتر بنانا ضروری ہے تب انہوں نے ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے ’’ادارۂ سیاست‘‘ کے ذریعہ شہر کے مختلف اسکولوں میں ایس ایس سی کوچنگ کلاسس کا اہتمام کیا ۔ اس کوشش کو دیکھتے ہوئے ناچیز کے ایک دوست ریاض احمد آغائی نے معمول کی ملاقات کے دوران کہا کہ جناب جے وی کرشنا ماہر تعلیم سینٹ تھامس سمہیتا کالج ملک پیٹ نے ایس ایس سی طلبہ کے لئے کوئسچن بینک تیار کیا ہے جو کہ طباعت کے مراحل میں ہے ۔ اس بات کی اطلاع اسی رات جب میں نے ظہیر صاحب کو دی تو انہوں نے فوری طور پر جناب جے وی کرشنا سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور جب انہیں دفتر مدعو کیاگیاتو بغیر کسی تامل کہ جناب ظہیر الدین علی خان نے اس ایس ایس سی کوئسچن بینک کی طباعت اور مفت تقسیم کا فیصلہ کیا اور کئی برسوں تک یہ سلسلہ جاری رہا اور اس کے تلگو اور اردو ایڈیشن بھی تقسیم کئے جاتے رہے اور اندرون دو برس مسلم طلبہ کی کامیابی کے فیصد میں اضافہ ریکارڈ کیا جانے لگا ۔انہوں نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے علاوہ نئی نسل میں اردو کو منتقل کرنے کے لئے جو اقدامات کئے ان میں ادارۂ ادبیات اردو اور ادارۂ سیاست کے اشتراک سے اردو دانی ‘ زبان دانی اور انشاء کے امتحانات منعقد کرواتے ہوئے لاکھوں افراد بشمول غیر مسلموں تک اردو کو پہنچایا ۔
غلامی کے طریق سے آزاد‘مصلح قوم
ملک میں مسلم نوجوانوں کو جیلوں سے رہا کروانے کے لئے ہی نہیں بلکہ انہیں بیجا مقدمات میں جیلوں میں بند کرنے کے سلسلہ کو روکنے ظہیر الدین علی خان نے جو کاوشیں کی ہیں ان میں ’پیپلز ٹریبونل‘ کا انعقاد جو ادارۂ سیاست میں کیاگیا تھا اس میں ملک کی کئی سرکردہ شخصیات نے شرکت کرتے ہوئے گجرات‘ حیدرآباد‘ اترپردیش ‘ کشمیر ‘ کرناٹک ‘ مہاراشٹرا کے گرفتار شدگان کی بپتا سنائی گئی تھی اور اس کے بعد مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ تھم سا گیا تھا۔گاؤکشی کے نام پر قتل کو دنیا نے 2014میں دیکھا لیکن 2008میں منعقد ہوئے اس ٹریبونل کو ‘Holy Cow & Scape Goat’ عنوان دیا گیا تھا۔ہرین پانڈیا قتل کیس اور اس کے بعد ان کے والد وٹھل بھائی پنڈیا کے علاوہ ان کی اہلیہ جاگرتی پنڈیا کے ذریعہ حقائق کا انکشاف ہویا گجرات پولیس کی جانب سے حیدرآباد کے بے قصور مسلم نوجوانوں کودہشت گردی کے مقدمات میں ماخوذ کئے جانے کا معاملہ ہو ان تمام کے لئے صرف قانونی امداد ہی نہیں بلکہ سابرمتی جیل میں ان سے ملاقات کرتے ہوئے ان کو ہمت دینا اور ان کے افراد خاندان کی مدد کو یقینی بنانا یہ ظہیر الدین علی خان کی ہی جرأت تھی کیونکہ POTAکے تحت گرفتار شدگان کی مدد کرنے والوں پر بھی POTAکے تحت مقدمات درج کرنے کی گنجائش تھی لیکن اپنے انجام سے بے پرواہ ’ظہیر صاحب‘ ہمیشہ یہ کہتے کہ اللہ کی مرضی اگر ہے تو جائیں گے جیل لیکن ان کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے والے ان نوجوانوں کے لئے جیل میں باہر سے کھانے کے انتظام اور ماہ رمضان کے دوران سحر و افطار کے اہتمام پر انہوں نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء کو تحفظ کی طمانیت بھی دی ۔دہلی کے Constitutional Club میں ’انہد‘ کے ساتھ منعقدہ پروگرام میں مکہ مسجد دھماکوں میں ’سیاست ‘ کی تحقیقاتی رپورٹس کے علاوہ دھماکہ کے بنیادی حقائق کو پیش کرتے ہوئے اس میں ’ہندو‘ دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ثبوت ارباب حکومت کی موجودگی میں پیش کئے اور اس کے فوری بعد کرنل پروہت اورسادھوی کے نام سامنے آنے لگے تھے۔
ادارۂ سیاست ‘ ملت فنڈ‘ سیاست ریلیف فنڈ
منیجنگ ایڈیٹر روزنامہ سیاست نے ادارۂ سیاست کو اخبار سے تحریک میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردار اد ا کیا۔بانی روزنامہ سیاست عابد علی خان اور ان کے رفیق محبوب حسین جگر کی پرمشقت زندگیوں سے تحریک حاصل کرتے ہوئے جناب زاہد علی خان کی نگرانی میں انہوں نے قوم وملت کو باشعور بناتے ہوئے دوسروں کی مدد کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی ۔اردو اخبار و تحریکات سے وابستگی کے باوجود انگریزی زبان کی امت کے نوجوانوں کو تربیت کے لئے 90کی دہائی میں مفت اسپوکن انگلش کی کلاسس اور 2000 کے بعد انگریزی زبان کے ساتھ مختلف امریکی ‘ برطانوی ‘ آسٹریلیائی اور یوروپی لہجہ کی تربیت کا اہتمام ‘ ملت فنڈ کے قیام کے ذریعہ ملت کے نونہالوں کو اسکالر شپس ‘ لاوارث میتوں کی تدفین کے علاوہ رشتوں کے لئے ’’دوبدو ‘‘ پروگرام کا انعقاد‘ سرکاری اسکیمات سے استفادہ کے لئے رہنمائی کے مرکز کا قیام‘ سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے رہنمائی اور تربیت ‘ مسابقتی امتحانات کی تربیت ‘ سیاست ریلیف فنڈ کے توسط سے سیلاب کے متاثرین کی باز آبادکاری ‘ ماب لنچنگ کا شکار ہونے والوں کی مدد ‘ ترکی و شام کے زلزلہ کے متاثرین کی مدد کے لئے منصوبہ بندی کرنے والی شخصیت کا نام ظہیر الدین علی خان تھا جنہوں نے صرف قوم وملت کی فکر میں اپنی زندگی گذار دی۔وہ اپنے اہل خانہ ‘ رفقائے کار‘ دفتری عملہ سے زیادہ اس غریب طبقہ کے متعلق زیادہ متفکر رہتے تھے جو اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنے سے قاصر ہوتے ۔وہ اپنے قریبی افراد کی معیشت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوتے اور ضرورتمندوں کو احساس دلائے بغیر ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ۔ادارہ ٔ سیاست کا پودا جناب عابد علی خان اور جناب محبوب حسین جگر نے ایک ایسے وقت لگایا تھا جب مسلمان تقسیم کے کرب اور پولیس ایکشن میں ہوئی بربادی سے مایوس ہوچکے تھے لیکن 1992 میں جناب عابد علی خان کی رحلت اور 1997 میں جناب محبوب حسین جگر کے سانحہ ارتحال کے بعد جناب زاہد علی خان کی نگرانی میں جناب عامر علی خان کی سرپرستی کرتے ہوئے ’’سیاست ‘‘ کی جو آبیاری کی اسے ادارہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ ظہیر الدین علی خان ترقی پسند نظریات اور ان کی فکر نے جو جہت عطاکی ہے اس کے ثمرات آج ملک بھر میں نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں دیکھے جا رہے ہیں ۔ ادارہ ٔ سیاست کو ہندستان کے پہلے ای۔پیپر یا انٹرنیٹ کی دنیا میں ویب سائٹ کے ذریعہ دنیا بھر میں سیاست کو پہنچانا ہویہ ان کی ہی اختراعی فکر کا نتیجہ ہے۔
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
ترقی پسند فکر رکھنے والوں کے متعلق یہ بات عام ہے کہ وہ مذہبی نہیں ہوتے لیکن ظہیر الدین علی خان کی مذہبی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب مبلغ اسلام مولانا کلیم صدیقی حیدرآباد کے دورہ پر تھے اور انہوں نے دفتر سیاست میں ظہیرالدین علی خان سے ملاقات کے دوران اپنے دعوتی کتابچہ ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں‘‘ کا تذکرہ کیا تو اسی وقت ظہیر صاحب نے اس کتابچہ کو مختلف زبانوں میں شائع کرواتے ہوئے اس کی تقسیم کا آغاز کیا اور برسوں وہ یہ خدمت انجام دیتے رہے۔اسی طرح خدمت قرآن کے معاملہ میں انہو ںنے ترجمہ قرآن اور ڈیجیٹل ترجمہ و قرأ ت کے کلاسس کا آغاز کرتے ہوئے ایک نئے باب کا آغاز کیاتھا۔وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے معاملہ میں اس قدر سنجیدہ تھے کہ خطاطی کے فروغ اور اس فن کے تحفظ کے لئے متعدد اقدامات کئے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف طرز تحریر اور خطاطوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ان کے فن کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسے جلاء بخشی۔شخصی زندگی میں ظہیر الدین علی خان تہجد گذار نماز پنجگانہ کا اہتمام کرنے والوں میں شامل تھے اور عملی طور پر اپنے اخلاق و کردار کے ذریعہ وہ دعوت کا کام کیا کرتے تھے ۔اسلامی تہذیب و ثقافت سے ان کی انسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ان ممالک کے دورہ کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھتے جن ممالک کا تعلق اسلامی تاریخ و تہذیب سے ہے۔مسلم طبقہ کے مظلوموں سے ان کی ہمدردی صرف گجرات‘ ممبئی ‘ کشمیر ‘ مظفرنگر‘ جھارکھنڈ یا بنگال تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ فلسطین کے کاز کے بھی کٹر حامی اور اسرائیلی جارحیت کے شدید مخالفین میں شمار کئے جاتے رہے ۔ ہند۔پاک تعلقات کے فروغ میں بھی ظہیر الدین علی خان نے جو خدمات انجام دیں اس کے گواہ کئی صحافی ہیں اور جو لوگ ہند۔پاک تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہے ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ منیجنگ ایڈیٹر سیاست کی شخصیت کیا تھی جو ہندستان میں ہندستانیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے ساتھ ساتھ سرحد پار تعلقات کو بھی مستحکم بنانے میں معاونت کیا کرتے تھے۔
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
صحافی کے متعلق میری شخصی رائے ہے کہ صحافیوں کی اکثریت حساس طبعیت کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتی ہے اور ان میں یہ احساس پیدا ہونا فطری ہے کیونکہ صحافی ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں جو اقتدار میں ہوتے ہیں لیکن بہ حیثیت صحافی ظہیر الدین علی خان حساس تو تھے لیکن وہ خود کو دوسروں سے برتر یا بہتر سمجھنے کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی ان میں کسی قسم کا تکبر تھا بلکہ نصف دنیا کے سرکردہ قائدین و حکمرانوں سے ملاقاتوں اور ان سے انٹرویو کے علاوہ ان ممالک کے تجزیوں کے باوجود وہ جب کبھی جہاں کہیں کوئی ایسی چیز دیکھتے کہ یہ خبر بن سکتی ہے تو ایک عام صحافی کی طرح اپنے فون سے ریکارڈنگ اور اس کی رپورٹنگ کرلیا کرتے تھے ۔صحافی کی حیثیت سے وہ امریکہ ‘ اسرائیل اور بعض معاملات میں سعودی عرب پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے اور جب کبھی ان ممالک کے قائدین ‘ حکمرانوں یا سفارتی عہدیداروں سے ملاقات ہوتی تو انہیں کھری کھری سناتے اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے گریز نہیں کرتے۔عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کے سفارتی عہدیداروں یا قائدین سے ملاقات کے دوران اکثر لوگ خوش آمد پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن ظہیر صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ ان سے ملاقات کرتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی پالیسیوں پر برملا اظہار خیال کرتے ۔شہر حیدرآباد میں جب ادارۂ سیاست نے ساؤتھ ایشیاء فری میڈیا اسوسیشن (سافما)کی کانفرنس کی میزبانی کی تو اس میں دنیا کے مختلف ممالک کے صحافی شریک تھے اور اس کانفرنس کے دوران انہوں نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر صحافی حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ نہ کرے اور ارباب اقتدار کے ساتھ خوش آمد پسندانہ رویہ اختیار کرلے تو ایسی صورت میں وہ صحافی باقی نہیں رہ جاتا بلکہ وہ صحافتی اداروں میں حکومت کا نمائندہ ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے جس انداز سے میری تربیت کی اس میں وہ بارہا یہ کہتے تھے کہ اگر ایک کامیاب صحافی بننا ہوتو تمہیں چاہئے کہ تم ارباب اقتدار کے ساتھ نہیں بلکہ عوام کے ساتھ کھڑے رہو تاکہ عوام کے مسائل سے واقف رہتے ہوئے صحافتی اصولوں کو پورا کرسکو۔قیام اسرائیل کے لئے کی جانے والی سازش اور صہیونی منصوبہ بندی کا واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ اسرائیل کے قیام میں صہیونی نعروں کا اہم کردار رہا اور یہودی نوجوانوں میں مسلمانوں سے نفرت اور سرزمین سے محبت پیدا کرنے کے لئے دیواروں پر نعرے تحریر کئے ہوئے انہوں نے دیکھے تھے ۔اس واقعہ کے تذکرہ کا مقصد ان کی باریک بینی کو پیش کرنا ہے کہ وہ کس قدر باریکی کے ساتھ اپنے اطراف کے ماحول کا جائزہ لیتے تھے۔ قتیلؔ شفائی کے الفاظ میں ؎
بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیاں وہ شخص
اداس کرکے ہمیں چل دیا کہاں وہ شخص
وہ اس کا حسن دل آرا … کہ چپ گناہ لگے
جو بے زباں تھے انہیں دے گیا زباں وہ شخص
قتیلؔ … کیسے بھلائیں ہم اہل درد اسے
دلوں میں چھوڑ گیا اپنی داستاں وہ شخص