قدیر خان کا پولیس تحویل میں قتل

   

پولیس ملازمین پر قتل کا مقدمہ درج کرنے سیول لبرٹیز کا مطالبہ
حیدرآباد ۔ 22 فبروری ( سیاست نیوز) سیول لیبرٹیز کمیٹی نے قدیر خان کی موت کو پولیس تحویل میں قتل قرار دیا ہے ۔ میدک پولیس کی جانب سے قدیر خان کو پولیس تحویل میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھات اتار دیا گیا ۔ سیول لیبرٹیز کمیٹی نے اس سلسلہ میں حقیقت سے جانکاری اور تلنگانہ عوام کو حالات اور حقیقت سے واقف کرنے کیلئے فیاکٹ فائنڈنگ اختیار کی اور ایک رپورٹ کو تیار کرتے ہوئے قدیر خان کی موت کو پولیس تحویل میں قتل قرار دیا ۔ جنرل سکریٹری این نارائن راؤ نے کہا کہ ایک طرف فرینڈلی پولیسنگ کا دعویٰ کرتے ہوئے دوسری طرف پولیس عوام کا قتل کرنے کے درپر اتر آئی ہے ۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرینڈلی پولیسنگ کی آڑ میں پولیس اس قدر بدمست ہوگئی ہے کہ وہ اپنی ساتھی خاتون پولیس ملازمین کے استحصال سے باز نہیں آتی ۔ انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ میں پولیس بے لگام اور اختیارات کے نشہ میں بدمست ہوگئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لاٹھی اور بندوق کا استعمال کرنے والی پولیس کو چاہیئے کہ وہ ذمہ دار اور جوابدہ رہے لیکن تلنگانہ میں حالات بالکل برعکس ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ قدیر خان ایک ذمہ دار شہری تھا ۔ ایک خاتون کا شوہر فوت ہونے کے بعد اس کے تین بچوں کو قبول کرتے ہوئے اس کے ساتھ زندگی بسر کررہا تھا ۔ وہ اس قدر ذمہ دار تھا کہ خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کی پرورش اور تعلیمی اخراجات کو بھی برداشت کررہا تھا لیکن اس نے کبھی اپنی معاشی مجبوری کے سبب انہیں نظر انداز نہیں کیا ۔معمولی چوری کے الزام میں پولیس نے قدیر خان کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے انسانی حقوق کو پامال کردیا ۔ سیول لیبرٹیز کمیٹی نے سب انسپکٹر راج شیکھر اور کانسٹبلس پروین اور پرشانت کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا اور قدیر خان کے افراد خاندان کو ایک کروڑ روپئے معاوضہ ادا کرتے ہوئے بچوں کی معیاری تعلیم کے انتظامات کرنے اور خاتون کی مدد کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا اور انصاف کو یقینی بنانے کی اپیل کی ۔ ع