قرآنِ لکھنے ، ٹوپیاں سینے والا شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر

   

اُجین کے قریب دونوں کی فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگ زیب عالمگیر ؒ کو فتح نصیب ہوئی لیکن ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی چھڑ گئی جس میں اورنگ زیب نے دوبارہ شکست دی۔اورنگ زیب ؒاپنے والد اورپانچویں مغل شہنشاہ شاہجہاں کے تحت انتظامی اور فوجی عہدوں پر فائز رہے اور انہوں نے سلطنت میں قابل فوجی کمانڈر کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔ اورنگ زیبؒ نے 1636ء تا 1637ء میں دکن کے وائسرائے اور 1645ء تا 1647ء میں گجرات کے گورنر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 1648ء تا 1652ء ملتان اور سندھ کے صوبوں کا مشترکہ طور پر انتظام سنبھالا اور پڑوسی صفوی علاقوں میں مہمات جاری رکھیں۔ ستمبر 1657ء میں اورنگ زیبؒ کے والد شاہجہاں نے اپنے سب سے بڑے بیٹے دارا شکوہ کو اپنا جانشین نامزد کردیا ، والد کے اِس اقدام کو اورنگ زیبؒ نے قبول نہیں کیا چنانچہ اُنہوں نے جانشینی کی لڑائی میں کامیابی حاصل کرلی اور 1658ء میں خود کو ’’نئے شہنشاہ ِہندوستان‘‘ کی حیثیت سے مغلیہ سلطنت میں اقتدار پر فائز ہوئے۔ اپریل 1658ء میں ، اورنگ زیبؒ نے دھرمات کی لڑائی میں اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ اور مارواڑ کی اتحادی فوج کو شکست دے دی۔ مئی 1658ء میں سموگڑھ کی جنگ میں اورنگ زیبؒ کی فیصلہ کن کامیابی نے اُن کی خود مختاری کو مضبوط کیا پھر اُن کی بالادستی کو پوری سلطنت میں تسلیم کرلیا گیا۔ جولائی 1658 میں والد شاہجہاں کی بیماری سے صحت یابی کے بعد اورنگ زیب ؒنے اُنہیں حکومت کیلئے مناسب نہیں سمجھااور بغاوت و بدامنی کے اندیشے کے تحت اپنے والد شاہجہاں کو آگرہ قلعہ میں نظربند کر دیا۔اورنگ زیبؒ کے دور میں مغل حدودسلطنت عروج پر پہنچ چکی تھیں جس میں انہوں نے کئی خاندانوں اور ریاستوں کی حکومت کو معزول (برخاست) کردیا ۔ اُن کی کامیابیوں نے اُنہیں ’’عالمگیر (فاتح)‘‘ کا لقب دیا۔ مغلوں نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ تے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت کا اعزاز بھی حاصل کیا۔مغل فوج آہستہ آہستہ بہتر ہوتی گئی اور پھر ایک دن دنیا کی سب سے مضبوط فوجوں میں سے ایک بن گئی۔ اورنگ زیبؒ کو کئی مسجدوں کی تعمیر اور عربی خطاطی کے کاموں کی سرپرستی کا سہرا بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کامیابی کیساتھ ’’فتاوی عالمگیری‘‘ کو سلطنت کا مرکزی ادارہ قرار دیا اور غیراسلامی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔ اگرچہ اورنگ زیبؒ نے کئی مقامی بغاوتوں کو کچل دیا ، لیکن انہوں نے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے۔
اورنگ زیبؒ کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے اُستادوں کی شاگردی ملی۔ مغل بادشاہوں میں اورنگ زیبؒ عالمگیر پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے قرآن پاک حفظ کیا تھا اور فارسی مضمون نویسی میں شہرت حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے گھڑ سواری، تیراندازی اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر ؒ نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور عریانیت اور فحاشی پر بھی روک لگائی ۔شراب، افیون اور بھنگ پر امتناع عائد کیا۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا، سجدہ کرنا اور ہاتھ اُٹھانا بھی برخاست کردیا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ اجناس پر ہرقسم کے ٹیکس ہٹا دیئے۔1665ء میں آسام، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کو بھی انجام تک پہنچایا ۔عالمگیر ؒنے 1666ء میں راجہ جئے سنگھ اور دلیر خان کو مرہٹہ حکمران شیوا جی کیخلاف روانہ کیا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کرلئے۔ شیواجی اور اُس کے بیٹا کو آگرہ میں نظربند کردیا گیا۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کردی۔ 1680ء میں شیواجی کے انتقال کے بعد اُس کا بیٹا سنبھاجی اس کا جانشین بنا۔ یہ بھی قتل و غارتگری کرنے لگا۔ عالمگیرؒ خود دکن پہنچا، سنبھاجی گرفتار ہو کر مارا گیا پھر اُس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ (باقی سلسلہ اِنشاء اللہ کل)