ابن حاجی گل
ہمارا سفر چند دنوں پر مشتمل تھا۔ اس دوران اپنے مشاہدات، تاثرات اور تجربات قارئین کے ملاحظے کیلئے پیش کررہا ہوں۔ امید ہے قارئین مستفید اور محظوظ ہوں گے۔ ایک عرب اور مسلمان ملک ہونے کے ساتھ ساتھ جغرافیائی طور پر مراکش شمالی آفریقہ کے مغرب میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں الجزائر، جنوب میں موریطانیہ، شمال میں بحیرہ روم اور مغرب میں بحراوقیانوس واقع ہے۔ ساتویں صدی عیسوی (670) میں اموی دور کے مشہور جرنیل حضرت عقبہ بن نافعؒ کی فتوحات کے نتیجے میں یہاں کے باشندے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ عربی میں المغرب‘‘ کہلاتا ہے، انگریزی میں Morocco اور اُردو میں ’’مراکش‘‘ کہلاتا ہے۔ مراکش کثیراللسان اور کثیرالثقافتی ملک ہے۔ عربی زبان کے علاوہ مراکش کی قدیم زبان امازیغی سرکاری زبانیں ہیں۔ ان کے علاوہ فرانسیسی، انگریزی اور ہسپانوی زبانیں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ مراکش میں چونکہ اسلام عربوں کی معرفت آیا، اس لئے یہاں عربوں، ان کی زبان اور ثقافت کے ساتھ ساتھ یہاں کے قدیم باشندے بربر بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
یہ ایک یادگار سفر تھا کیونکہ مراکش کا یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔ یہ سفر اس لحاظ سے بھی یادگار تھا کیونکہ جن دنوں ہم مراکش کی سیر کررہے تھے، انہی دنوں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الاقوامی فٹبال ٹورنمنٹ منعقد ہورہا تھا۔ ہمارے قیام کے دوران حسن اتفاق سے مراکش کی فٹبال ٹیم نے ورلڈ کپ کے ٹورنمنٹ میں پے در پے دو بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور وہ بھی ان استعماری ملکوں کی ٹیموں کے خلاف جنہوں نے ایک طویل عرصے تک مراکش پر تسلط قائم کیا تھا اور جن سے آزادی کے حصول کے لئے اہل مراکش نے بہت قربانیاں پیش کیں یعنی اسپین اور پرتگال، یہ بات ہمارے مشاہدے میں آئی کہ میچ کے دوران بازاروں اور سڑکوں پر بہت ہی کم ٹریفک اور لوگ نظر آئے جیسے ہی یہ دونوں میچ مراکش کی جیت پر ختم ہوئے، لوگ سڑکوں پر انتہائی بڑی تعداد میں خوشی میں باہر نکل آئے، اس موقع پر سڑکوں، عوامی مقامات اور ریسٹورنٹس میں مراکشی عوام کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔
یہ سفر اس لحاظ سے بھی یادگار تھا کہ اس دوران ہمیں مراکش کی بہت سی تاریخی جغرافیائی، دینی، ثقافتی اور تمدنی اقدار اور روایات اور معلومات جاننے کا موقع ملا جن کے بارے میں اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہم بہت کم جانتے تھے اور اس رپورٹ کے لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان معلومات سے وہ قارئین مستفید ہوسکیں جنہوں نے ابھی تک اس ملک کا سفر نہیں کیا یا جو اس عرب مسلمان اور آفریقی ملک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
مراکش کی سیاحت کے لئے ہم نے مراکش کے خوبصورت ساحلی شہر اغادیر (Agadir) کا انتخاب کیا جو ملک کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ بحر اطلس کے ساحل اور اطلسی پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ خوبصورت شہر یورپ کے ٹھنڈے اوریخ برفانی موسم سے فرار حاصل کرنے والے سیاحوں کیلئے ایک پرکشش مقام ہے، دیگر ممالک اور خطوں سے بھی سیاح اس علاقے میں تفریح کے لئے آتے ہیں جہاں کا موسم ان دنوں معتدل تھا اور درجہ حرارت ڈسمبر کے ابتدائی دنوں میں ہمارے قیام کے دوران 20 اور 25 سینٹی گریڈ کے درمیان تھا۔
ویسے تو عربی زبان میں اغادیر نہر، تالاب یا جھیل کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اغادیر مراکش کے قدیم باشندوں بربر کی زبان امازیغی میں مضبوط یا بلندی پر واقع قلعے یا دیوار کو کہتے ہیں جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے، وہ شہر کے ٹاؤن سنٹر میں واقع ہے اور ساحل سمندر اور پہاڑ سے زیادہ دور نہیں۔ اغادیر میں 1960ء میں زبردست زلزلہ آیا تھا جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا اور شہر نئے سرے سے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔لوٹن ایرپورٹ سے اغادیر کا سفر تقریباً ساڑھے تین گھنٹے میں دوپہر کے خوشگوار موسم میں طئے ہوا جیسے ہی جہاز اغادیر ایرپورٹ کے قریب پہنچنے لگا۔ کھڑکی سے باہر جھانکا تو باہر کا خوبصورت اور دلفریب منظر انتہائی پرکشش لگا۔ سورج کی روشنی اپنی تمازت کے ساتھ پہاڑوں پر پڑ رہی تھی اور منظر کی خوبصورتی اور دلکشی میں اضافہ کررہی تھی، چاہا کہ یہیں اُترجائیں۔
مراکش کا خوشگوار موسم ہمارے استقبال کیلئے منتظر تھا۔ سہ پہر کی دھوپ میں تازہ ہوا کی سانس لیتے ہی لندن کا سرد موسم بھول گئے۔ ایرپورٹ سے ہوٹل کا راستہ ٹیکسی میں تقریباً آدھے گھنٹے میں طئے ہوا۔ ایرپورٹ اور شہر میں بھی ٹیکسی ڈرائیوروں کے ساتھ کرایہ طئے کرنے میں جدوجہد کرنی پڑتی ہے لیکن ایرپورٹ کے عملے اور دیگر ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بناء پر 200 مراکشی درہم سے زیادہ کرایہ نہ دینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
جب ہم اپنے بک کردہ ہوٹل پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ کی کوئی بکنگ نہیں کیونکہ آپ کی طرف سے بکنگ کنفرمیشن اور فیس نہیں ملی۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد افہام و تفہیم اور ازسرنو رقم کی ادائیگی کے بعد ہمیں کمرہ مل گیا جو ہماری توقعات اور قیمت کے لحاظ سے مناسب اور آرام دہ تھا اور اپنی کھڑکی اور بالکونی سے باہر کے منظر سے لطف اندوز ہونے کی سہولت بھی میسر تھی۔ اگرچہ ہم نے ایک ایجنسی کی وساطت سے Online بکنگ کرائی تھی لیکن ہمیں پتہ چلا کہ اگر آپ خود موقع پر ہوٹل جاکر بکنگ کرائیں تو نہ صرف آپ اپنی پسند کا کمرہ خود دیکھ کر بک کرواسکتے ہیں بلکہ آپ کچھ بچت بھی کرسکتے ہیں اور یہی طریقہ ہم نے اس سفر کے دوران ٹیکسیوں کے کرائے اور سیاحتی مقامات کی سیر کے دوران اختیار کیا۔
ہوٹل میں سامان رکھنے اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد کھانے کیلئے اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے کیلئے ہم باہر نکلے۔ یہ علاقہ چونکہ زیادہ تر سیاحوں کے ہوٹلوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے صاف ستھرا نظر آرہا تھا اور عمارتیں بھی عالیشان اور جدید طرز تعمیر کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہاں آپ کو مختلف قسم کے مقامی اور بیشتر بین الاقوامی شہر کے ریسٹورنٹ اور کیفے نظر آئیں گے۔ مراکش میں پہلا کھانا ہم نے یہاں کی روایتی ڈش لیمب تاجین اور کسکس سے کیا۔ خوردونوش اور چند دیگر ضروری اشیاء کی خریداری ایک چھوٹی سپر مارکٹ سے کی جس سے اندازہ ہوا کہ مہنگائی کی وباء سے دنیا کا یہ خطہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ اس علاقے میں بین الاقوامی سیاح قیام پذیر ہوتے ہیں، اس لئے کاروباری لحاظ سے یہاں قیمتوں کا فرق واضح طور پر محسوس ہوا جوکہ غیرمعمولی بات نہیں۔
(سلسلہ جاری ہے)