قطر میں 8 سابق عہدہ داروں کو سزائے موتمودی حکومت کی آزمائش

   

مملکت قطر میں ہندوستانی بحریہ کے 8 سابق عہدہ داروں کو جاسوسی کے الزام میں وہ بھی اسرائیل کیلئے جاسوسی کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی جس کے ساتھ ہی ہندوستان بھر میں ہلچل مچ گئی۔ مودی حکومت نے حیرت اور صدمہ کا اظہار کیا اور اب وہ بحریہ کے ان سابق عہدہ داروں کے ارکان خاندان کو یہ تیقن دلارہی ہے کہ ہم آپ کے عزیزوں کو واپس لائیں گے،اس مسئلہ کا کچھ نہ کچھ حل ضرور نکالیں گے۔ ہمارے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے ان سابق عہدہ داروں کے ارکان خاندان سے ملاقات کرتے ہوئے واضح تیقن دیا کہ حکومت ہند اپنے 8 شہریوں کو سزائے موت سے بچانے اور انہیں رہائی دلانے کیلئے ممکنہ کوشش کررہی ہے اور اپنی کوششوں کو جاری رکھے گی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری بحریہ کے ان سابق عہدہ داروں نے جن میں کیپٹن ( ریٹائرڈ ) سوربھ وششٹ، کیپٹن ( ریٹائرڈ ) بی کے ورما، کمانڈر ( ریٹائرڈ ) سوگوناکر پکالا ، کمانڈر پرنیندو تیواری ( ریٹائرڈ ) ، کمانڈر ایس کے گپتا ( ریٹائرڈ ) اور راکیش شامل ہیں، آخر ایسا کیا سنگین جرم کیا ہے کہ انہیں سزائے موت سنائی گئی۔ قطر سے جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق مذکورہ تمام ہندوستانیوں کو گذشتہ سال ہی گرفتار کیا گیا تھا بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ انہیں اسرائیل کیلئے قطر کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ویسے ہر عرب ملک میں جاسوسی کو انتہائی سنگین بلکہ قابل سزائے موت جرم سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستانی بحریہ کے یہ سابق 8 عہدہ دار راست تو نہیں بالواسطہ طور پر قطر بحریہ کیلئے خدمات انجام دے رہے تھے دراصل وہ ایک نجی دفاعی کمپنی الظاہرہ العالمی میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
یہ بھی اطلاع ہے کہ وہ ایک نئی آبدوز کو قطری بحریہ میں شامل کئے جانے کے پراجکٹ سے وابستہ تھے اس آبدوز کی خوبی یہ ہے کہ سمندری پانی میں اس کی موجودگی کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ اس کی تیاری میں ایسی دھاتیں استعمال کی گئی ہیں اور آلات نصب کئے گئے ہیں جو آبدوز کو دشمن کی نظروں سے چھپائے رکھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی بحریہ کے ان سابق اعلیٰ عہدہ داروں کو الظاہرہ کمپنی میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا تھا۔ الظاہرہ میں صرف 8 ہندوستانی نہیں بلکہ 75 ہندوستانی خدمات انجام دے رہے تھے تاہم پچھلے سال جیسے ہی جاسوسی کا معاملہ سامنے آیا ان تمام کو کمپنی سے نکال دیا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کس طرح اپنے شہریوں کو سزائے موت سے بچائے گا؟ اس کے پاس پہلا امکان یہ ہے کہ حکومت ہند قطر کی اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرے۔ قطری قانون کے مطابق وہ صرف قطری وکیل کی ہی خدمات حاصل کرسکتی ہے ایسے میں یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت ہند قطر کے مشہور وکلاء کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ایک تو قانونی اور دوسرے سفارتی سطح پر وہ سزائے موت کے منتظر اپنے شہریوں کو بچاسکتی ہے۔ تیسرا آپشن یا امکان یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس ضمن میں امیر قطر صاحب السموع الشیخ تمیم بن حمد الثانی سے بات کریں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ آپشن یا امکان کارگر ثابت ہوگا اس کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے عرب دوستوں سے مدد لے سکتے ہیں لیکن قطر، متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب کی ثالثی قبول نہیں کرے گا، ہاں کویت اس معاملہ میں ہندوستان کی کچھ مدد کرسکتا ہے۔ ہندوستان کے پاس جو آخری امکان بچ جاتا ہے وہ عالمی عدالت سے رجوع ہونا ہے۔
حکومت ہند عالمی عدالت سے رجوع ہوکر پاکستان میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد بڑی بے بسی سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے کلبھوشن جادھو کی طرح بحریہ کے سابق اہلکاروں کی سزائے موت پر عمل آوری کو ٹال سکتی ہے اس کیلئے اسے بین الاقوامی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا ، اگر یہاں پر بھی ناکامی ہوتی ہے تو آخری راستہ رحم کی اپیل کا رہ جاتا ہے۔ یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندوستانی بحریہ کے ان سابق عہدہ داروں نے قطر میں پُرکشش تنخواہوں پر ملازمتیں حاصل کرتے ہوئے قطر کے خلاف ہی جاسوسی کیوں کی ہے، کیا یہ احسان فراموشی نہیں ہے؟ آخر انہیں کس نے اپنے محسن ملک کو دھوکہ دینے کیلئے اُکسایا یا تیار کیا؟ یہ بھی سوال بہت اہم ہے کہ یہ اگر حقیقت میں اسرائیل کی جاسوسی کررہے تھے تو پھر کب سے وہ اسرائیل کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں ڈالے ہوئے تھے، ان لوگوں کو کم از کم اس بات کا خیال تو رکھنا چاہیئے تھا کہ ہندوستان اور قطر کے باہمی تجارتی تعلقات خوشگوار ہیں۔ ہندوستان کو قدرتی گیس سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک قطر ہے، اس ملک میں جہاں 8 لاکھ ہندوستانی باشندے مقیم ہیں اور وہاں سرکاری و نجی اداروں میں ملازمتیں کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں، کمپنیاں چلاتے ہیں اور دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 15 ارب ڈالرس مالیتی ہے، ایسے میں عرب ملکوں کے ساتھ ہندوستان کے خوشگوار تعلقات ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں فرقہ پرست تنظیموں کی جانب سے مودی حکومت میں مسلمانوں پر جو مظالم، ناانصافی، جانبداری اور تعصب کا سلسلہ جاری ہے اس پر برہمی بھی پائی جاتی ہے اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے ہندوستان کو سالانہ ان مسلم ، عرب ملکوں سے اربوں ڈالرس کی رقم بھیجتے ہیں۔ مثال کے طور پر مالی سال 2021-22 میں دنیا بھر سے ہندوستانیوں نے اپنے ملک کیلئے 90 ارب ڈالرس ترسیل زر بھیجا جس میں متحدہ عرب امارات دوسرے نمبر پر رہا۔ اس میں سے یو اے ای سے 18 فیصد رقم بھجی گئی۔ سعودی عرب سے 5.1 فیصد رقم روانہ کی گئی۔ کویت ، عمان اور قطر نے بالترتیب اس میں 2.4 فیصد، 1.6 فیصد اور 1.5 فیصد حصہ ادا کیا۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق قطر میں ہندوستانی بحریہ کے 8 سابق اہلکاروں کی جاسوسی کے الزام میں گرفتاری اور سزائے موت سنائے جانے کے بعد ہندوستانیوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔ قطر میں پیش آیا یہ معاملہ ہندوستان کیلئے ایک بڑا درد سر بن سکتا ہے۔ اس سے صرف قطر میں مقیم 8 لاکھ ہندوستانی ہی نہیں بلکہ عرب ملکوںمیں روزگار سے جڑے 80 لاکھ ہندوستانیوں پر بھی اثر پڑے گا، ان پر کئے جانے والے بھروسہ اور اعتماد پر اثر پڑے گا۔ حالانکہ ہندوستانی محنتی اور دیانتدار کے طور پر مشہور ہیں۔ مستقبل میں عرب ملکوں میں ہندوستانیوں کو اہم اور حساس عہدوں پر فائز کرنے سے گریز کیا جائے گا۔ خاص طور پر دفاعی شعبوں میں ان کی خدمات حاصل نہیں کی جائیں گی۔ ویسے بھی اکٹوبر 2015 میں امیر قطر کے دورہ ہند کے موقع پر ہند ۔ قطر نے تحویل حوالگی مجرمین و قیدیوں کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت دونوں ملکوں میں سزا پانے والے قیدیوں کو ان کے اپنے ملک میں سزائے قید پوری کرنے گنجائش فراہم کی گئی ۔ کیا اس معاہدہ پر عمل آوری ہوگی۔