قلعہ گولکنڈہ اور گنبدان قطب شاہی کے تحفظ کو نظرانداز کرنے پر ہائی کورٹ برہم

   

اندرون دو ہفتے رپورٹ طلب، مناسب لائیٹنگ کا انتظام تک نہیں ہے
حیدرآباد: تلنگانہ ہائی کورٹ نے قلعہ گولکنڈہ اور گنبدان قطب شاہی جیسے تاریخی یادگاروں کے تحفظ کے سلسلہ میں مرکزی و ریاستی حکومتوں کے رویہ پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ عدالت نے دونوں تاریخی مقامات کے تحفظ کے سلسلہ میں منصوبہ اور بجٹ کی تفصیلات اندرون دو ہفتے پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ہائی کورٹ نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے عہدیداروں اور محکمہ سیاحت و کلچر پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہائی کورٹ کی وارننگ کے باوجود یادگاروںکو نظر انداز کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس وجئے سین ریڈی پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے ڈائرکٹر جنرل آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور سکریٹری محکمہ سیاحت حکومت تلنگانہ کو ہدایت دی کہ عدالت میں حاضر ہوں اور تاریخی یادگاروں کے تحفظ کے منصوبہ سے واقف کرائیں۔ ایک انگریزی اخبار میں تاریخی یادگاروں کی ابتر صورتحال سے متعلق رپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ عوام شام 5.30 بجے کے بعد تاریخی یادگاروں میں داخلہ سے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہیں مکمل تاریک کردیا گیا ہے اور لائیٹنگ کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ عدالت نے گنبدان قطب شاہی اور گولکنڈہ قلعہ میں برقی کے انتظامات کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عہدیداروں کو دونوں مقامات کا دورہ کرتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے ۔ سارا علاقہ شام میں تاریکی میں ڈوب جاتا ہے اور کوئی بھی شخص داخلہ کا تصور نہیں کرسکتا ۔ عدالت نے اس معاملہ میں ہائی کورٹ کی اعانت کے لئے سینئر وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ حکومت کے حلفنامہ میں بارش کے سبب قلعہ کی دیواروں کو نقصانات کا دعویٰ کیا گیا اور مرمتی کاموں کیلئے آرکیالوجیکل سروے کے ڈائرکٹر جنرل کو رپورٹ روانہ کرنے کی اطلاع دی گئی۔ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا آرکیالوجیکل سروے سے مرمتی کاموں کی منظوری حاصل ہوئی ہے یا نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دنیا بھر سے سیاح ان یادگاروں کو دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔ انہوں نے قلعہ میں لائیٹنگ کے انتظام میں ناکامی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عہدیداروں سے سوال کیا کہ آخر لائیٹنگ کرنے میں کیا چیز رکاوٹ ہے۔