’’قوانین منسوخ نہیں کرینگے، چاہو تو عدالت جاؤ‘‘

,

   


ساتویں دور کی بات چیت میں بھی متنازعہ زرعی قوانین کا حل برآمد نہ ہوسکا۔8جنوری کو اگلی بات چیت

نئی دہلی : متنازعہ زرعی قوانین کی منسوخی کے تعلق سے جاری تعطل آج بھی برقرار رہا کیوں کہ مرکز اور کسانوں کے درمیان ساتویں دور کی بات چیت میں کوئی حل برآمد نہیں ہوسکا۔ ذرائع نے کہاکہ حکومت نے فصلوں کی اقل ترین امدادی قیمت کے لئے قانونی ضمانت سے متعلق کسانوں کے مطالبہ پر غور و خوض کی تجویز رکھی تھی لیکن کسانوں کے یونین قائدین نے زرعی قوانین کو سرے سے منسوخ کرنے پر بات چیت کے لئے اصرار کیا۔ اِس پر حکومت نے اتفاق نہیں کیا اور وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے یہاں تک کہہ دیا کہ قوانین منسوخ نہیں کئے جائیں گے اور احتجاجی کسان چاہیں تو اِس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع ہوجائیں۔ کسان مزدور سنگھرش کمیٹی کے سروان سنگھ پیندھر بھی اِس میٹنگ میں شریک ہوئے۔ اُنھوں نے پنجاب کے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ طویل جدوجہد کے لئے تیار رہیں۔ ہم جمہوریہ پر بڑا احتجاجی جلوس نکالیں گے۔ تاہم، تھوڑی سی اُمید ابھی باقی ہے کیونکہ حکومت اور احتجاجی کسان دونوں فریقوں نے 8 جنوری کو دوبارہ میٹنگ منعقد کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ کسانوں اور مرکزی حکومت کے درمیان وگیان بھون میں ساتویں مرحلہ کی بات چیت ہوئی ۔ ذرائع کے مطابق کسان تنظیموں کے ایم ایس پی پر تحریری یقینی دہانی اور تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کے مطالبہ پر حکومت نے کہا کہ ایک جوائنٹ کمیٹی بنا دیتے ہیں، وہ طے کرے کہ ان تینوں قوانین میں کیا ترامیم کیے جانے چاہئیں۔ لیکن حکومت کی اس تجویز کو کسان تنظیموں نے خارج کر دیا ہے۔ایک طرف دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کا مظاہرہ جاری ہے، اور دوسری طرف وگیان بھون میں کسان تنظیموں کے نمائندے مودی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔کسان تنظیموں کے نمائندوں نے پچھلے دور کی بات چیت کے دوران بھی حکومت کا کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا ۔ اس مرتبہ بھی کسانوں کیلئے دوپہر کا کھانا لنگر سے لایا گیا۔ میڈیا ذرائع کی اطلاعات کے مطابق ابھی تک متنازعہ قوانین کی واپسی کو لے کر کوئی اتفاق قائم نہیں ہو سکا ہے۔ اجلاس کے دوران مظاہرہ میں ہلاک ہونے والے کسانوں کے لئے 2 منٹ کی خاموشی منائی گئی۔ مرکزی وزراء نریندر تومر، پیوش گویل، سوم پرکاش سمیت تمام شرکاء نے 2 منٹ کی خاموشی اختیار کی۔