قومی تعلیمی پالیسی۔ نظر انداز کردہ سنگین مسئلہ

   

پی چدمبرم

نئی تعلیمی پالیسی کو انتہائی عمدہ بتایا گیا ہے اور اس سلسلہ میں حکومت متعدد دعوے بھی کررہی ہے۔ کوئی بھی اس بیان میں جھول تلاش کرسکتا ہے جس میں تحریر ہے ’’عالمی رسائی برائے اعلیٰ تعلیم ہندوستان کے مسلسل عروج اور عالمی شہہ نشین پر معاشی ترقی میں قیادت سماجی انصاف اور مساوات فراہم کرتی ہے‘‘۔ لیکن این ای پی میں تحریر کے درمیان اور بین السطور بہت کچھ ہے۔ یہ کوئی مضمون نہیں میں چاہتا ہوں کہ این ای پی کا بحیثیت ایک پالیسی جو لسانی مسئلہ اور اسکولی تعلیم سے نمٹتی ہے تجزیہ کروں۔
انگلش پڑھاؤ یا انگلش میں پڑھاؤ
مرکزی ۔ اور پیچیدہ ۔ سوال زبان کا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کہتی ہے کہ ذریعہ تعلیم کم از کم پانچویں جماعت تک بلکہ ترجیحاً 8 ویں جماعت تک اور اس کے بعد بھی مقامی زبان ؍ مادری زبان ؍ وطن کی زبان ہوگا۔ اس کے بعد وطن کی ؍ مقامی زبان پڑھائی جائے گی۔ بحیثیت ایک زبان جہاں تک ممکن ہو (پیرا 4.11)۔ میں وطن کی زبان ؍ مادری زبان کو بچوں کے لئے ذریعہ تعلیم بنانے کی تائید کرتا ہوں جن کے والدین اس کے لئے تائید کریں اور لاکھوں والدین ایسے ہوں گے جو تائید کریں گے۔ اس کے باوجود ہچکچاہٹ کی وجوہات ایک غیر مسلمہ پالیسی بیان یا ذریعہ تعلیم کے بارے میں واضح ہوں۔ یہ اچھی طرح واضح ہے کہ وطن کی زبان بحیثیت ذریعہ تعلیم کو منتشر مخالفت کا سامنا ہوگا کیونکہ (1) یہ موجودہ نقطہ نظر اور عوام کے بہت بڑے گوشہ کا موجودہ نقطہ نظر ہے۔ (2) یہ اس وقت تک نافذ نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ خانگی منافع خور اسکولس کو ممنوع قرار دیا جائے اور (3) حکومت کو خود اس بات کا یقین نہیں ہے کہ کیا یہ معیاری تعلیم کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ اگر پانچویں جماعت یا 8 ویں جماعت کے بعد تدریس اور وطن کی زبان ؍ مقامی زبان میں جاری رہے۔ ممتابنرجی اس کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی تاکہ سی پی آئی ایم کو مغربی بنگال میں دفن کردیا جائے۔ اسکولس میں انگریزی ذریعہ تعلیم کا دوبارہ متعارف کروانا ایک اصلاح ہے جس کا آدتیہ ناتھ اترپردیش میں بی جے پی حکومت کے چیف منسٹر نے فخر کے ساتھ اعلان کیا ہے۔
سہ لسانی اصول
زبان کا پیچیدہ مسئلہ قومی تعلیمی پالیسی کے تین زبانوں کے اصول پر اصرار کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہوگیا۔ چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ زبان اول بحیثیت مضمون پڑھائی جانی چاہئے اور ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے۔ اس کے بعد جدید ترین سطح پر تعلیم دی جانی چاہئے اور تیسری بات یہ کہ عملی خواندگی کی سطح سمجھی جانی چاہئے۔ یہ بہت اچھا ہے اگر کوئی بچہ ایک سے زیادہ زبان سیکھتا ہے خاص طور پر ایک کثیر لسانی ملک میں لیکن کتنی زبانیں باقی بچیں گیں اور کہاں بچیں گی تاکہ بچہ اور اس کے والدیں انتخاب کرسکیں۔ این ای پی اس آزادی کو تسلیم کرتی ہے لیکن اس کی دم میں بھی ڈنک لگا ہے۔ بچوں کے کورس میں خود ہندوستان میں کتنی زبانیں دیسی زبانیں سمجھی جاسکتی ہیں۔ جب تک کہ دو یا تین زبانیں ہیں۔ (پیرا ۔ 4.15) ۔ درجہ ذیل دو باب میں ایک پورا باب سنسکرت کے لئے مختص کیا گیا ہے جو اسکول کی تمام سطحوں کے لئے پیش کی گئی ہے اور سہ لسانی فارمولہ میں ایک اختیاری زبان ہے۔ (پیرا۔ 4.17)
اس پالیسی کے زبان کے بارے میں دوہرے اصولوں کا مقصد واضح ہے اور یقینا یہ معصومیت کے ساتھ نہیں اختیار کیا گیا اس کے نتیجہ میں تاملناڈو کی تمام سیاسی پارٹیاں قومی تعلیمی پالیسی کی بحیثیت مجموعی مخالفت میں متحد ہوگئی ہیں۔ اس پر غور کیجئے : تامل کے لئے جو ہندوستان کی دوسری دیسی زبان ہے غالباً، حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے ہندی یا سنسکرت ہوسکتی ہے۔ ہندی کو یا سنسکرت کو مسلط کرنے کے اندیشے (براہمن) غلبہ پڑھیں۔ دونوں ذرائع تعلیم تاملناڈو میں ہونے چاہئے۔ مجھے حکومت کو انتباہ دینا چاہئے: این ای پی تاملناڈو میں کامیابی کے لئے تائید حاصل نہیں کرسکتی جب تک کہ زبان کا مسئلہ حل نہ کیا جائے جس سے تامل عوام مطمئن ہوسکیں۔ اس پر بھی غور کیجئے : ایک طالب علم کے لئے مادری زبان ہندی ہے، دوسری ملکی زبان واضح طور پر سنسکرت ہوگی۔ ایک گجراتی، مراٹھی یا پنجابی کے لئے جس کے ملکی زبان ہندی سے قریبی طور پر تعلق رکھتی ہوگی۔ دوسری اور تیسری زبانیں ہندی اور سنسکرت ہوں گی، ان میں سے کوئی بھی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھنے کا اختیار نہیں ہوگا اور سنسکرت کے ساتھ اس کے مبدا کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا جبکہ انگلش سیکھنے کے لئے یہ ضروری ہے اور تین زبانوں میں سے ایک ہے۔ عدم مساوات اور فرق و امتیاز بڑے پیمانے پر پھیل جائے گا۔
تعلیم عوامی فلاح نہیں
اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی صورت میں این ای پی بالکل خاموش ہے اور واضح طور پر نہیں کہتی کہ دو قسم کے ادارے ۔ سرکاری اور خانگی منافع خور ادارے نہیں ہیں۔ (پیرا ۔ 18.12) تاہم جہاں اسکولی تعلیم کا سوال آتا ہے این ای پی انحراف کرتی ہے۔ وہ سرکاری، خانگی اور امدادی اسکولس کی بات کرتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت کے نقطہ نظر سے اسکولی تعلیم عوامی فلاح کے لئے نہیں ہے بلکہ ایسا شعبہ ہے جہاں خانگی منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ درحقیقت حکومت نے زمرہ بندی کی ہے کہ یہ اس کے اختیار سے باہر ہے کہ کوئی اسکولی تعلیم کی خالی جگہ کو بھردے۔ ایک بار خانگی منافع خور اسکولس کو اجازت دی جائے تو ایک یکساں لسانی پالیسی اختیار کرنا مشکل ہوگا۔ استاد کے لئے نصاب تعلیم کے معیارات مقرر نہیں ہوں گے اور نہ کسی بھی دوسرے بلند بانگ این ای پی کے مقاصد حاصل کئے جاسکیں گے۔ خانگی منافع خور اسکولس درحقیقت کاروبار کرتے ہیں اور وہ جدوجہد کریں گے کہ منافع میں اعظم ترین حصہ حاصل ہو اور وہ اپنے ذریعہ تعلیم کو عوام کی طلب کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انگلش امتحانوں کے لئے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ماہرین تعلیم اسپورٹس وغیرہ کی قیمت پر ایسا نہیں چاہتے۔ اگر این ای پی غلطی کرتی ہے یا اسکولی تعلیم کے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتی ہے تو وہ خانگی منافع خور اسکولس کے لئے کمزور ترین حصہ بن جائے گی، باقی این ای پی کے بارے میں بعد ازاں لکھا جائے گا۔