قومی سیاست کا تلنگانہ پر اثر، سی ایل پی کے انضمام کو کے سی آر نے ٹال دیا

   

لوک سبھا نتائج کا انتظار، مرکز میں کانگریس حکومت کی تائید کے واضح اشارے، 11 منحرف ارکان کا مستقبل دائو پر
حیدرآباد۔10 مئی (سیاست نیوز) قومی سطح پر بدلتی سیاسی صورتحال کا تلنگانہ کی سیاست پر اثر دکھائی دینے لگا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو جو کل تک کانگریس ارکان اسمبلی کے انحراف کی سرگرمیوں میں مصروف تھے، بتایا جاتا ہے کہ انہو ںنے سی ایل پی کی ٹی آر ایس میں انضمام کے منصوبے کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے 19 ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور وقفہ وقفہ سے ابھی تک 11 ارکان اسمبلی نے انحراف کا اعلان کرتے ہوئے ٹی آر ایس میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ کانگریس لیجسلیچر پارٹی کو ٹی آر ایس میں ضم کرنے کے لیے مزید دو ارکان کی ضرورت ہے۔ 13 ارکان کے ساتھ لیجسلیچر پارٹی کو باقاعدہ ٹی آر ایس میں ضم کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کانگریس کے تین ارکان اسمبلی ٹی آر ایس قیادت سے ربط میں ہیں لیکن مرکز میں مابعد لوک سبھا نتائج امکانی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کے سی آر نے جلد بازی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف منسٹر کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ کے سی آر کو خوف ہے کہ اگر مرکز میں کانگریس زیر قیادت مخلوط حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ ان سے ہر ممکن بدلہ لینے کی کوشش کرے گی۔ ایسے میں تلنگانہ میں عدم استحکام کا ماحول پیدا ہوگا اور ترقی بھی متاثر ہوگی۔ لہٰذ انہوں نے لوک سبھا انتخابات تک سی ایل پی کو کانگریس میں ضم کرنے کی تیاریاں روک دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق چیف منسٹر نے اپنے قریبی ساتھیوں کو بتایا کہ وہ فوری طور پر مرکز سے ٹکرائو نہیں چاہتے۔ قومی سطح پر معلق لوک سبھا کے امکانات کو دیکھتے ہوئے کے سی آر کا موقف کانگریس کے حق میں نرم ہوچکا ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر کرناٹک ایچ ڈی کمارا سوامی کے ذریعہ کانگریس اعلی کمان تک یہ پیام پہنچایا ہے کہ اگر کانگریس کو تشکیل حکومت میں ضرورت پڑے گی تو ٹی آر ایس تائید کے لیے تیار ہے۔ ٹی آر ایس کی ترجیح بی جے پی کے مقابلہ کانگریس رہے گی۔ تاہم یہ انتخابی نتائج پر منحصر رہے گا۔ ایسے میں کانگریس کے 11 ارکان اسمبلی کا سیاسی مستقبل معلق ہوسکتا ہے کیوں کہ ان کے خلاف انسداد انحراف قانون کے تحت کارروائی کی کانگریس نے اسپیکر سے نمائندگی کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کے سی آر 11 ارکان اسمبلی کو کارروائی سے کس طرح بچا پائیں گے۔