قومی شاہراہوں پر حادثات ، قیمتی جانوں کا اتلاف کیوں ؟

   

بھارتی مشرا ناتھ
چند دن قبل احمد آباد دہل کر رہ گیا کیونکہ ایک جاگوار ڈرائیور نے 140 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے ہجوم میں گھسادی جس کے نتیجہ میں 9 افراد ہلاک اور ایک درجن سے زائد افراد شدید زخمی ہوگئے ۔ دوسری طرف ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل ٹریفک اینڈ سیفٹی کرناٹک کے دفتر کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بنگلورو ، میسورہائی وے پر جنوری سے جملہ 296 حادثات پیش آئے جن میں 132 زندگیوں کا خاتمہ ہوگیا ۔ اسی طرح ممبئی ، ناگپور ایکسپریس وے سمرود مہا مارگ پر یومیہ اوسطً تین حادثات پیش آتے ہیں ۔ اس ایکسپریس وے کو گزشتہ سال عوام کیلئے کھولا گیا ۔ 701 کلو میٹر روڈ پر جو دوسرا طویل ترین ایکسپریس وے ہے ہر تین دن میں ایک زندگی کا خاتمہ ہوتا ہے اسی ایکسپریس وے پر تاحال تقریباً 620 حادثات پیش آچکے ہیں جن میں 100 سے زائد اموات ہوئیں ۔ دوسری طرف احمد آباد ، ممبئی قومی شاہراہ پر بے شمار خطرناک حادثات پیش آئے جن میں گزشتہ سال ستمبر میں پیش آیا وہ حادثہ بھی شامل ہے جس میں ٹاٹانسس کے سابق چیرمین سائرس مستری کی ہلاکت ہوئی ۔ آپ کو بتادیں کہ ہندوستان میں تقریباً 64 لاکھ کلو میٹر پر مشتمل روڈ نٹ ورک ہے اور ہندوستان کے 90 فیصد پاسنجرس ( مسافرین ) ٹریفک روڈ نیٹ ورک کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ ہی سفر کرتے ہیں اور روڈ کنکٹویٹی میں کم بہتری کے نتیجہ میں زندگیوں کیلئے بڑا جوکھم پیدا ہوا ویسے بھی سڑکوں کی ٹریفک ،حادثات کو اموات ، معذوری اور اسپتالوں میں بھرتی کئے جانے کی اہم وجہ سمجھا جاتا ہے جس پر ملک کو ناقابل تصور سماجی ، اقتصادی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں جو حادثات پیش آتے ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والے ہر 10 افراد میں سے ایک ہندوستانی ہوتا ہے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے ملک میں ہر سال دیڑھ لاکھ افراد سڑک حادثات میں موت کا شکار ہوتے ہیں ۔ سال 2021 میں جملہ 4,12,432 حادثات کا اندراج عمل میں آیا جس میں 1,42,163 ( 34.5 فیصد ) حادثات انتہائی مہلک تھے اور 2,46027 ( 59.7 فیصد ) واقعات میں لوگ زخمی ہوئے ۔ اگر ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو انسانی زندگی کا بہت اتلاف ہوا اور خاص طور پر ایسے خاندانوں کیلئے جس کا ایسا رکن حادثہ میں ہلاک ہوجائے جو کمائی کا واحد ذریعہ تھا ۔ اس قسم کے حادثات زندگی بھر کا درد و غم لاتے ہیں ۔ منسٹری آف روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویز کا تازہ ترین ڈیٹا اس بات کا انکشاف کرتا ہے کہ تیز رفتار ڈرائیونگ ، حالت نشہ میں گاڑی چلانے یا پھر رانگ سائیڈ ڈرائیونگ ، سیٹ بیلٹ باندھنے اور ہیلمیٹ پہننے سے گریز کرنے کے ساتھ ساتھ سڑکو ں کی خراب منصوبہ بندی اور سڑکوں پر گڈھے وغیرہ سڑکوں ، ہائی ویزا اور ایکسپریس ویز پر حادثات اور ان میں اموات کی اہم وجوہات ہیں ۔ ہیلمیٹ اور سیٹ بیلٹس جیسے سیفٹی کی چیزوں کا عدم استعمال حادثات کا باعث نہیں بنتا لیکن خطرناک اور شدید زخموں سے آپ کو بچاسکتے ہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ تیز رفتار ڈرائیونگ ، بزنسمین سائرس مستری اور ان کے ساتھ سفر کررہی ان کی ساتھی خاتون ڈاکٹر کی موت کا سبب بنی تھی ۔ سیٹ بیلٹ نہ باندھنے سے ان کی موت نہیں ہوئی ۔ وہ حادثہ ممبئی ، احمد آباد قومی شاہراہ پر پیش آیا ۔ مسٹر الوک کمار اے ڈی جی ٹریفک اینڈ سیفٹی کرناٹک کا کہنا ہیکہ اکثر حادثات سڑک استعمال کرنے والوں کی غفلت اور لاپرواہی سے پیش آتے ہیں ایسے میں عوام کو چاہئے کہ وہ خود اپنی اور دوسروں کی حفاظت کیلئے سیفٹی پروٹوکول پر عمل کریں ۔ بعض لوگوں نے ایکسپریس وے کے ڈیزائن پر بھی تشویش اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا چنانچہ ڈئیزائن میں بہتری کیلئے نیشنل اتھاریٹی آف انڈیا NHAI نے ماہرین کی ایک ٹیم روانہ کی جہاں تک سیدھی سڑکوں کا سوال ہے عام طور پر انہیں کم جوکھم بھری سمجھا جاتا ہے اس کے باوجود ان سڑکوں پر ہی زیادہ تر حادثات (67%) پیش آتے ہیں ۔ اکثر آپ نے قومی شاہراہوں پر سفر کے دوران ڈرائیوروں کو نیند آنے کے باعث حادثات کے بارے میں سنا ہوگا اسے White Line Fever کہا جاتا ہے یعنی ذہن کی یہ ایسی حالت ہوتی ہے جو ڈرائیوروں کی لانگ ڈرائیو پر اثر انداز ہوتی ہے یہ ایسے وقت ہوتی ہے جب ڈرائیور بہت زیادہ توجہ اپنی ڈرائیورنگ پر مرکوز کرتا ہے اور ڈرائیور کرتا ہے اور پھر وہ بے خود ی کی حالت میں داخل ہوتا ہے جس کے ساتھ ہی وہ اپنے اطراف و اکناف کی چیزوں سے بے خبر ہوجاتا ہے اور ایک ڈرائیور نگ کی نیم خود کار طریقہ میں پہنچ جاتا ہے یہ کیفیت بہت زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے کیونکہ یہ ڈرائیور کو غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم کردیتی ہے ان حقائق کا اظہار سواتی داون ہلی ڈائرکٹر ریجنل انسٹی ٹیوٹ آف آپتھالمولوجی احمد آباد نے کیا ۔ جب تک لاپرواہی سے اور بہت تیز رفتاری کے ساتھ ڈرائیونگ کے نتیجہ میں کسی کی موت ہوجاتی ہے تو اس کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 304 عائد کی جاتی ہے اور پھر اسے اس دفعہ کے مطابق دو سال قید کی سزا ہوسکتی ہے ۔