روش کمار
آج کل یہی دیکھا جارہا ہیکہ لوگ آپس میں جب بات کرتے ہیں تو بہت ہی فرقہ وارانہ انداز میں بات کرتے ہیں حد تو یہ ہیکہ اگر رشتہ دار بھی واٹس اپ گروپ میں گفتگو کرتے ہیں تو اس قدر شدت کے ساتھ فرقہ وارانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں کہ ان سے بحث کرنا مشکل ہو جاتا ہیکہ بھائی آخر آپ اس طرح کی بکواس (باتیں) کیوں کر رہے ہیں۔ چنانچہ اسی مضمون یا موضوع پر تحقیق کرنے کی آج بہت ضرورت ہے کئی لوگوں نے مجھے مکتوبات روانہ کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی ہے اور بتایا کہ خود رشتہ داروں کو بھی اس طرح کے فرقہ وارانہ انداز اپنانے سے روکنا بہت مشکل ہے۔ یہ رشتے اپنی اس بیوقوفی پر بہت ہرہم ہیں کہ کئی لوگ فرقہ وارانہ انداز اپنانے والے اپنے رشتہ داروں کے سامنے خود کو بے بس پاتے ہیں۔ آپ جو کچھ بحث کریں حقائق پیش کریں اس طرح کے رشتہ داروں پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کوئی اثر مرتب ہونے والا نہیں ہے۔ جہاں تک رشتہ داروں کا سوال ہے یہ اپنے آپ میں وسیع تر معنی رکھتے ہیں۔ ان میں باپ بھی شامل ہے ان کے لئے ایک علیحدہ زمرہ کی تخلیق نہیں کی گئی۔ یہ مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا جس طرح موجودہ سیاست یا سیاستداں فرقہ واریت کو گھر گھر پہنچا رہے ہیں۔ ماضی میں سیاست نے بھی فرقہ واریت کو گھر گھر نہیں پہنچایا۔ ہاں فسادات ہوا کرتے تھے جس سے شہر یا ریاست کے محدود لوگ متاثر ہوتے لیکن اب فسادات ہر طرف ہو رہے ہیں۔ فسادات نے اپنا حلقہ وسیع سے وسیع تر کرلیا ہے اور اس طرح کے حالات میں ان رشتہ داروں کا بہت بڑا کردار ہے، آج انتہائی خوفناک و دہشت ناک قسم کی فرقہ واریت اور بالخصوص ان رشتہ داروں میں دیکھی جارہی ہے جو وظیفہ خور ہیں۔
گزشتہ سال ایسا ہی ہوا جب رشتہ داروں نے تبلیغی جماعت سے متعلق فیملی گروپ میں زہر پھیلایا۔ فرقہ واریت کا وہ زہر اس قدر طاقتور تھا کہ اس کے اثر سے ہر گھر میں ایک فساد کے لئے تیاری ہوگئی تاہم بعد میں کئی عدالتوں کے متعدد فیصلوں میں صاف صاف طور پر یہ کہہ دیا گیا کہ کورونا وباء اور اس کے پھیلنے سے تبلیغ اور تبلیغیوں کا کچھ لینا دینا نہیں۔ جس طرح ملک میں کورونا وائرس کے لئے تبلیغی جماعت اور تبلیغیوں کو ذمہ دار قرار دینے کی کوششیں کی گئیں اس سے ساری دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہوئی۔ اس طرح آج کل بنگال کے فیملی گروپ میں فرقہ واریت پر مبنی مباحث ہونے لگے ہیں۔ فرقہ واریت ان رشتہ داروں کی پہلی خوراک ہے اس طریقے سے ان لوگوں نے ہر غلط کو درست کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک فیملی گروپ میں شامل رہنا مختلف رائے رکھنے والے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ صورتحال اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ کسی خاندان کا بیٹا بیروزگار ہے لیکن وہ اپنے گھر میں بیروزگاری کے مسئلہ پر اظہار خیال کرنے یا کچھ بولنے سے قاصر ہے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے خاندانوں میں جمہوری فضاء ختم ہوچکی ہے۔
میں یہی سفارش کرتا ہوں کہ اس قسم کے بحث و مباحث سے متعلق مواد پیش کیجئے اور پوسٹس بھی آگے بڑھائے جارہے ہیں، پھر اپنے طور پر اس کا تجزیہ کیجئے اور دو تا تین ہفتوں کے وقفہ سے اپنے رشتہ دار کو بھیجئے، یہی آپ کی سوچ و فکر کا پیاٹرن ہونا چاہئے کہ رشتہ دار کس زمرہ کے ہیں؟ اپنی زندگی کی گاڑی آگے بڑھانے کے لئے وہ کیا کرتے ہیں؟ ان کے گھروں میں کونسی کتابیں ہیں؟ وہ کونسا ٹی وی چیانل دیکھتے ہیں اور کتنی دیر تک دیکھتے ہیں؟ ان تمام باتوں کا جائزہ لے کر اپنا تجزیہ فیس بک پر بھی پوسٹ کریں۔ اگر دیکھا جائے تو فی الحال ان رشتہ داروں کی فرقہ واریت کے تعلق سے ایک بہت بڑی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ جو رشتہ داری کا احساس رکھتے ہیں۔ صرف رشتہ داری کا احترام کیجئے لیکن ان رشتہ داروں کی فرقہ واریت پر مبنی چیزوں کے خلاف جدوجہد کرنا بہت اہم ہے۔ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان رشتہ داروں کے زیر اثر ایک بچہ بھی فسادی بن سکتا ہے کسی کو بھی قتل کرسکتا ہے یہ رشتہ دار ہماری سماجی ساخت کے لئے ایک خطرہ بن گئے ہیں۔
اب وقت آگیا ہیکہ واٹس اپ گروپ کے رشتہ داروں سے چوکسی اختیار کی جائے۔ ان کے منہ پر یہ کہنے سے راہ فرار اختیار نہ کی جائے کہ آپ فرقہ پرست ہیں اور آپ کی سوچ ایک فسادی کی سوچ ہے ایسا کرنے سے ہی خاندانوں اور ملک میں جمہوریت باقی رہے گی۔