قومی ہفتۂ غذائیت : ناقص غذائیت کے خاتمے میں زرعی ٹیکنالوجی کا کردار

   

ڈاکٹر سید امتیاز حسن
صدر و اَسوسی ایٹ پروفیسرشعبہ کمپیوٹر سائنس و اِنفارمیشن ٹکنالوجی مانو
ہم سبھی نے اپنے بچپن میں یہ کہاوت ضرور سنی ہوگی ’’صحت دولت ہے‘‘ لیکن متوازن غذا جسمانی اور ذہنی صحت کیلئے لازمی ہے۔ حکومت نے لوگوں کو غذا کی اہمیت سے آگاہ کرنے کیلئے سال 1982 میں ’’پوشن ابھیان‘‘ شروع کی اور اس بات پر زور دیا کہ ہم سب متوازن غذا اور پائیدار طرز زندگی کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی صحت برقرار رکھنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ ’’قومی ہفتہ غذائیت‘‘ یکم ستمبر سے 7 ستمبر تک منایا جاتا ہے تاکہ اچھی غذا اور صحت کی نسبت سے عوام کو آگاہ کیا جا سکے۔ ہر سال نیشنل نیوٹریشن ویک کا ایک تھیم ہوتا ہے اس سال کا تھیم ہے ’’اسمارٹ غذا شروعات سے ہی‘‘۔
پائیدار ترقیاتی اہداف کی رپورٹ 2021 اور یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 690 ملین افراد نے 2019 میں بھوک کا سامنا کیا ، جو کہ دنیا کی آبادی کے کل 8.9% کے برابر ہے – یہ پچھلے پانچ سال میں تقریباً 60 ملین کا اضافہ ہے۔ سال 2020 وبائی مرض کووڈ کے سائے میں گزرا اور بھوک سے متاثرہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا۔ سال 2020ء میں متوازن غذا سے محروم افراد کی کل تعداد 768 ملین بتائی جاتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تقریباً تین میں سے ایک کو مناسب خوراک تک رسائی حاصل نہیں ہوپائی ہے ۔
نیتی آیوگ ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ، براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ لوگ بھوک کے شکار ہیں-کل آبادی کا دو تہائی۔ مالنیوٹریشن پانچ سال سے کم عمر بچوں میں تقریبا 45 فیصد اموات کا سبب بنتی ہے۔ جوہر سال 3.1 ملین بچوں کے برابر ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں 66 ملین پرائمری اسکول جانے والے بچے بھوکے کلاسوں میں جاتے ہیں۔
آج بھی ماڈرنائزیشن کے دور میں مہاتما گاندھی کی یہ مشہور کہاوت “ہندوستان اپنے گاؤں میں بستا ہے‘‘ مناسبت رکھتی ہے۔ ہندوستانی دیہی گھرانوں میں سے 70% اب بھی بنیادی طور پر اپنی معاش کیلئے زرعی شعبہ پر منحصر ہیں۔ 82% کسان چھوٹے اور پسماندہ ہیں۔ زراعت دنیا کا سب سے بڑا ملازمت کا ذریعہ ہے ، جو آج کی عالمی آبادی کے 40% لوگوں کو روزی فراہم کرتا ہے۔انتہائی غربت اور بھوک بنیادی طور پر دیہی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو کسان ، غربت ، بھوک اورمالنیوٹریشن ایک بہت بڑا تناسب ہے۔ اس لئے غربت ، بھوک اور مالنیوٹریشن کے خاتمے کیلئے پیداوار اور دیہی آمدنی کو بڑھانے کی مزید ضرورت ہے۔
ایگریکلچر کے نظام کو زیادہ مستحکم بنانے میں ٹیکنالوجی ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ آرٹیفیشیل انٹلیجنس کے ذریعے آب و ہواوموسم کی پیشن گوئی ، بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال سے تیار ہونے والی فصلیں ،بگ ڈیٹا سے پیداوار میں بہتری اور سپلائی چین مینجمنٹ ، فارموں پر مشینوں کا استعمال اور جی پی ایس ٹیکنالوجی کچھ ایسے ذرائع ہیں جو بہت ہی کارگر ہیں۔ بہتر آبپاشی اور ذخیرہ اندوزی کی ٹیکنالوجی،پانی کا دانشمندانہ انتظام ، خشک سالی سے بچنے والی فصلوں کی نئی اقسام کی شناخت ٹیکنالوجی کے زریعے ممکن ہے جو کہ ، خشک زمینوں کی پیداوار کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ روایتی کسان کے علم کو ڈیٹا بیس کے طور پر محفوظ کیا جا سکتا ہے اور پھر بہتر پیداوار کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس طرح زراعت اور پیداوار میں ہم آہنگی حاصل کرنے کیلئے مزید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کیلئے بہتر ذریعہ معاش ہوگا جو بالآخر کسان، غر بت،بھوک اورمالنیوٹریشن کے مسائل کو حل کرے گا۔