قیدیوں کا انجام نیتن کے ہاتھ میں ہے ،حماس کا جواب

   

غزہ، 16 ستمبر (یو این آئی) حماس نے امریکی صدر کے اُس بیان کو اسرائیلی پروپیگنڈے کی حمایت قرار دیا ہے جس میں ڈونالڈ ٹرمپ نے فلسطینی تنظیم کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیلی قیدیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہ کرے ۔ حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ شہر پر قابض فوج کے حملے اور قیدیوں کی صورتِ حال سے متعلق ٹرمپ کے بیان صہیونی پروپیگنڈے کی کھلی حمایت اور دہری پالیسی کی واضح مثال ہیں، جو نسلی تطہیر کے جرم اور تقریباً 65 ہزار معصوم شہریوں کی شہادت پر آنکھیں بند کر لیتی ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکی انتظامیہ بخوبی جانتی ہے کہ جنگی مجرم بنیامین نیتن یاہو قیدیوں کے تبادلے کے کسی بھی معاہدے کو ناکام بنانے اور غزہ پر وحشیانہ نسل کشی کی جنگ کو جاری رکھنے پر تُلا ہوا ہے ۔ اس کی تازہ مثال قطر پر مجرمانہ حملہ اور اس مذاکراتی وفد کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے جو ٹرمپ کی حالیہ تجویز پر بات چیت کر رہا تھا۔ بیان کے مطابق غزہ میں قابض فوج کے قیدیوں کا مستقبل نیتن یاہو کی حکومت کے ہاتھ میں ہے … اور غزہ شہر کو منظم تباہی اور فاشسٹ نسل کشی کی مہم کا نشانہ بنانا خود اسرائیلی فوجی قیدیوں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے ۔ بیان کے اختتام پر حماس نے کہاکہ غزہ میں قید فوجیوں کی زندگیوں کی مکمل ذمے داری جنگی مجرم نیتن یاہو پر عائد ہوتی ہے ، جبکہ امریکی انتظامیہ بھی اس وحشیانہ نسل کشی کی براہِ راست ذمے دار ہے ۔ اس لیے کہ وہ قابض افواج کے جرائم پر پردہ ڈالنے کیلئے حمایت اور گمراہ کن پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے ، جنھیں دنیا تقریبا دو برس سے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں کہا کہ میں نے ابھی ایک خبر دیکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حماس نے قیدیوں کو زمینی حملے کے خلاف انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کیلئے دوسری جگہ منتقل کر دیا ہے ۔ انھوں نے مزید لکھاکہ مجھے امید ہے کہ حماس کے رہنما اس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انھیں کس انجام کا سامنا ہو گا۔

’’بیت المقدس کی سرنگ‘‘کے افتتاح میں روبیو کی شرکت کا راز
یروشلم، 16ستمبر (یو این آئی) مقبوضہ بیت المقدس کے پرانے شہر کے نیچے ایک سرنگ کے افتتاح میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو کی شرکت نے بڑے پیمانے پر تنازعہ اور سوالات کو جنم دیا ہے ۔ یہ سرنگ تقریباً 600 میٹر طویل ہے جو سلوان کی وادی حلوہ محلے سے شروع ہوکر مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار (دیوارِ براق) کے قریب جا کر ختم ہوتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی تسلط اور اسے یہودیانے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے ۔ مصر کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر جنرل محمد رشاد نے العربیہ اور الحدث کو بتایا کہ یہ اقدام بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی پالیسیوں کی کھلی حمایت ہے۔
ان کے مطابق یہ عمل اقوام متحدہ کی قرارداد 478 سمیت ان تمام فیصلوں کے منافی ہے جو مشرقی بیت المقدس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتے ہیں اور اسرائیلی الحاق کو کالعدم مانتے ہیں۔ رشاد کے مطابق روبیو کی شمولیت واشنگٹن کی اسرائیل کیلئے واضح حمایت ظاہر کرتی ہے اور یہی حمایت اسرائیل کو اپنی غیرقانونی کھدائیوں اور منصوبوں پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس امریکی پشت پناہی کے بعد نیتن یاہو سنجیدگی سے مغربی کنارے کے کچھ حصے ضم کرنے اور “گریٹر اسرائیل” کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا سوچ رہے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد مہران نے بھی کہا کہ امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی واشنگٹن کی اس خاموش رضامندی کی عکاس ہے جو اسرائیلی قبضے کو تقویت دیتی ہے ، حالانکہ امریکہ بطور سلامتی کونسل کے مستقل رکن ان قراردادوں کا پابند ہے جو مشرقی بیت المقدس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق اس طرح کی سرگرمیاں دراصل شہر کو یہودیانے اور اس کی عرب و اسلامی شناخت مٹانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر مہران نے زور دیا کہ یہ اقدامات ہیگ 1907 اور جنیوا کنونشن 1949 کی خلاف ورزی ہیں، جو قابض طاقت کو مقبوضہ علاقوں میں مستقل تبدیلی یا ثقافتی و مذہبی ورثہ تباہ کرنے سے روکتی ہیں۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ یہ سرنگ مسجد اقصیٰ اور اسلامی مقامات کے ڈھانچے کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے ۔ ڈاکٹر مہران نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ان خلاف ورزیوں کو روکے ۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کا جانب دار رویہ امن عمل میں اس کے ثالثی کردار کو ناکام بناتا ہے اور اسرائیل کو مزید خلاف ورزیوں پر اُکسائے گا۔ انھوں نے عالمی برادری سے اس اقدام کی مذمت اور ذمے داروں کے احتساب کا مطالبہ کیا، جبکہ عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ سخت مؤقف اپنائیں، سفارتی و اقتصادی دباؤ بڑھائیں اور بیت المقدس اور اس کے مقدس مقامات کو اسرائیلی منصوبوں سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کریں۔