لالو ملک کے کٹرسیکولر لیڈر

   

ڈاکٹر سریش کھیرنا
جو لوگ بہار کے الیکشن مہم کے دوران لالو پرساد یادو کے دورِ حکومت کو ‘‘جنگل راج’’ کہتے تھے، ان سے میرا چند سوالات ہیں۔ لالو پرساد یادو 1989 کے بھاگلپور فسادات کے بعد ہونے والے انتخابات میں 1990 میں پہلی بار بہار کے وزیرِ اعلیٰ بنے تھے۔ ان کے اقتدار سنبھالتے ہی جب درگا پوجا کے جلوسِ بت غرق کے دوران سیتامڑھی میں فسادات کی خبر آئی تو لالو پرساد رات کے اندھیرے میں ہی ہیلی کاپٹر سے پٹنہ سے سیتامڑھی پہنچ گئے۔ اترتے ہی وہ سیتامڑھی کی گلیوں میں پیدل چلے اور لوگوں سے امن بحال کرنے کی اپیل کی۔ اگر یہ ‘‘جنگل راج’’ تھا تو 27 فروری 2002 کے گودھرا واقعہ کے بعد گجرات میں جو کچھ ہوا، اس حکمرانی کو کیا کہیں گے؟1989 میں کانگریس حکومت کے دور میں بھاگلپور میں جو کچھ ہوا، اسے دیکھ کر مجھے لگا کہ اگلے پچاس برس یا اس سے زیادہ ہندوستانی پارلیمانی سیاست صرف فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے گرد گھومے گی۔ اسی لیے میں نے تہیہ کیا کہ باقی زندگی اسی مسئلے پر کام کروں گا۔ بھاگلپور فسادات کے بعد امن و ہم آہنگی کے کام کی وجہ سے 1991 میں میرے سینئر ساتھی پروفیسر دلیپ چکرورتی (جو اس وقت جنتا دل بنگال کے صدر اور معزز سوشلسٹ لیڈر تھے) مجھے خاص طور پر پٹنہ لے گئے تاکہ میں لالو پرساد یادو سے مل سکوں۔اس ملاقات میں لالو جی نے مجھ سے کہا: ’’سْریش جی، آپ مہاراشٹر کے راشٹر سیوا دل سے ہیں۔ آپ، بنگالی لکھاری و صحافی گور کشور گھوش جی اور شانتی نکیتن کے کچھ طلبہ امن کا کام کر رہے ہیں، مجھے معلوم ہے۔ میں نے بھاگلپور میں فسادات کے بعد خاص طور پر دو بہترین افسران تعینات کیے ہیں: ڈویڑنل کمشنر شنکر پرساد اور پولیس کمشنر اجیت دتا۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ میرے دورِ وزارتِ اعلیٰی میں بہار میں کہیں بھی ایک بھی فساد نہ ہو۔ یہ میرا پکا عہد ہے۔‘‘ کیا آپ اس عزم کو بھی ‘‘جنگل راج’’ کہیں گے؟
بعد میں جب بھاگلپور پولیس کے متنازع کردار پر سوالات اٹھے تو لالو جی نے ڈویڑنل کمشنر سے لے کر پولیس کمشنر تک سب کا تبادلہ کردیا کر دیا۔ نئے تعینات پولیس کمشنر اجیت دتا نے مجھ سے کہا: ’’1990 میں حلف اٹھاتے ہی پہلی میٹنگ میں لالو جی نے آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران سے صاف کہا تھا: ’’دیکھئے، میں ابھی وزیرِ اعلیٰ بنا ہوں۔ جب تک میں اس کرسی پر ہوں، اگر کہیں فساد ہوا تو میں خود سب سے پہلے وہاں پہنچوں گا، کلکٹر اور ایس پی کے منہ کالے کروں گا، ان کی جلوس نکالوں گا، پھر فسادیوں سے نمٹوں گا۔‘‘جب کسانوں نے ایک سال سے زیادہ اپنی کھیتی بچانے کے لیے احتجاج کیا تو اس تحریک کو کچلنے کے لیے کیا کتنے حربے استعمال ہوئے؟ ہزار سے زیادہ کسان شہید ہوئے۔ ایسی حکومت کو کیا کہیں؟ اور آج جن صوبوں میں ‘‘گجرات ماڈل’’ کے نام پر بی جے پی حکومتیں چل رہی ہیں، ان کو کیا کہیں؟ ایک اور واقعہ: 23 اکتوبر 1990 کو لالو جی نے ہی ایودھیا جا رہے لال کرشن اڈوانی کی رت یاترہ کو روکا اور سمستی پور میں اڈوانی کو گرفتار کیا، بالکل بھاگلپور فسادات کی پہلی برسی سے ایک دن پہلے۔
6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید ہونے کے بعد ملک بھر میں فسادات ہوئے لیکن بہار میں ایک بھی فساد نہیں ہوا۔ سب سے اہم بات یہ کہ جس بھاگلپور میں 1989 میں خوفناک فسادات ہوئے تھے، وہاں میں 5 دسمبر 1992 سے ایک ہفتہ ڈیرہ ڈالے رہا اور شہریوں کے تعاون سے 115 محلہ کمیٹیاں بنائیں۔ مجھے ڈر تھا کہ ردِعمل میں کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ صرف تین سال ہی گزرے تھے۔ لیکن بھاگلپور سمیت پورے بہار میں لالو پرساد کی قیادت میں مکمل کنٹرول رہا۔تو کیا ان لوگوں کا لالو کے دور کو ‘‘جنگل راج’’ کہنا منصفانہ ہے جن کی پوری سیاسی زندگی فسادات اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن پر کھڑی ہے؟ لالو پرساد کے دور میں نہ صرف ایک بھی فساد نہیں ہونے دیا گیا بلکہ وہ دنیا کی ہر تفتیشی ایجنسی کے سامنے پیش ہوئے، طویل عرصہ جیل میں رہے، نئے نئے الزامات عائد کر کے مقدمات دائر کئے جاتے رہے لیکن انہوں نے کبھی سر نہیں جھکایا۔ لالٹین کی روشنی میں لاکھوں لوگوں کے سامنے گولولکر کی متنازع کتابوں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے اور آر ایس ایس بی جے پی کے سامنے کبھی جھکے نہیں، براہِ راست فرقہ پرستی سے لڑتے رہے۔‘‘جنگل راج’’ کی افواہ اس لیے پھیلائی گئی کیونکہ لالو نے صدیوں سے ذات پات کے نظام تلے کچلے گئے لوگوں کو عزتِ نفس اور اعتماد دیا۔
1990 میں بھاگلپور میں امن کے کام کے دوران ایک پانڈے جی نے مجھے کھانے پر بلایا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا: ’’سْریش جی، پہلے پسماندہ ذات کا کوئی لڑکا ہمارے گھر آتا تو جھک کر کھڑا ہوتا تھا۔ اب وہ کرسی کھینچ کر برابری سے بیٹھ جاتا ہے۔ ہم برداشت نہیں کر پاتے لیکن کیا کریں؟ ان کا آدمی پٹنہ میں بیٹھا ہے۔ بہار میں منصفانہ انتخابات سے پسماندہ طبقے کا لیڈر لالو پرساد وزیرِ اعلیٰ بنا۔ یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ اگلی بار جب کوئی پسماندہ آپ کے دروازے پر آئے تو آپ خود کہیے ’آؤ بیٹا بیٹھو‘ ورنہ بلڈ پریشر بڑھا کر اپنی صحت خراب کرتے رہیں گے۔‘‘اگر اس بدلتی حقیقت کو بھی کوئی ‘‘جنگل راج’’ کہے تو اس شخص کو کیا کہیں؟ 28 فروری 2002 کو گجرات کے اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کا کردار عالمی سطح پر متنازع تھا۔ یورپ کے تقریباً تمام ممالک نے ان پر ویزا پر پابندی لگا دی تھی۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی نے خود احمد آباد میں مودی کے سامنے کہا تھا:’’وزیرِ اعلیٰ مودی نے راج دھرم نہیں نبھایا۔‘‘ اب اس حکمرانی کو کیا نام دیں؟