لال سلام سوروارم سدھاکر ریڈی

   

سید ولی اللہ قادری

حوصلہ افزا وراثت:
ایک نڈر دانشور سے لے کر ہندوستان کی محنت کش عوام کی آواز بننے تک، سوروارم سدھاکر ریڈی نے اْس جدوجہد کی علامت پیش کی جو “کلاس روم سے دنیا کی رفاقت تک” کا سفر ہے۔ ان کی زندگی اصولوں پر مبنی قیادت کا ایک خاکہ پیش کرتی ہے جو عوام کی روز مرہ کی جدوجہد میں جڑی ہوئی ہے۔
سوروارم سدھاکر ریڈی (پیدائش: 25 مارچ 1942) کو وہ جنرل سیکریٹری سمجھا جاتا ہے جس نے 2012 سے 2019 کے دوران اپنی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو نئی توانائی بخشی۔ انہوں نے تنظیمی ڈسپلن کو وسیع اتحادوں کے ساتھ جوڑا اور ہندوستانی بائیں بازو کو ایک پْراعتماد عوامی آواز دی۔
انقلابی روح کی جھلک
آٹھویں جماعت میں کنورول کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہی نوجوان سدھاکر نے اپنے ساتھی طلبہ کو بلیک بورڈ اور چاک کے لیے ہڑتال میں قیادت فراہم کی۔ یہ اْن کی پہلی اجتماعی جدوجہد تھی۔ یہ جذبہ آگے چل کر عثمانیہ یونیورسٹی لا کالج میں اور پختہ ہوا، جہاں وہ طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے اور کیمپس کو ایک سرخ قلعہ میں بدل دیا۔
طلبہ و نوجوانوں کے رہنما
1966 اور پھر 1969 میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (AISF) کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوکر انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا، 62 دن کی ہڑتالوں کی قیادت کی تاکہ ہاسٹل، وظیفے اور سماجی بہبود کے اقدامات حاصل کیے جا سکیں—اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ اس جدوجہد کے دوران وہ کئی بار جیل گئے، جن میں لکھنؤ اور کلکتہ کی مرکزی جیلیں بھی شامل ہیں۔
1972 تک وہ آل انڈیا یوتھ فیڈریشن (AIYF) کے صدر منتخب ہو گئے اور انہوں نے اْس مہم کی قیادت کی جس کے نتیجے میں بھارتی نوجوانوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سے گھٹا کر 18 سال کر دی گئی—یہ 61ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ممکن ہوا۔
محنت کش طبقے کے پارلیمنٹیرین
نالگنڈہ سے دو مرتبہ لوک سبھا کے رکن منتخب (1998 اور 2004) ہوئے اور لیبر پر پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بنے، جن کی انقلابی سفارشات کی بنیاد پر غیر منظم محنت کشوں کے لیے سماجی تحفظ اور نجی اسکول کے اساتذہ کے لیے گریجویٹی جیسے اہم بل منظور ہوئے۔ ان کی تقاریر—نالگنڈہ میں فلورائیڈ آلودگی، کسانوں کی خودکشیاں، کالا دھن اور 2G اسکینڈل پر—پارلیمنٹ کی اخلاقی سمت متعین کرنے والی آواز سمجھی جاتی ہیں۔
انہوں نے عوامی سطح پر بڑی تحریکوں کی قیادت کی، جن میں آندھرا پردیش میں بجلی کی قیمتوں کے خلاف تاریخی جدوجہد شامل ہے، جس میں پولیس فائرنگ کے دوران گولیاں ان کے سر کے قریب سے گزریں لیکن بچ گئے۔ اس جدوجہد نے ورلڈ بینک کی ہندوستانی ریاست پر منفی مداخلت کا خاتمہ کیا۔ 1997 سے 2005 تک وہ آندھرا پردیش کے ریاستی سیکریٹری CPI رہے۔ ڈپٹی جنرل سیکریٹری (2008) کی حیثیت سے انہوں نے خاص طور پر یونیورسٹی طلبہ کی تحریکوں میں طبقاتی اور ذات پات کی جدوجہد کو جوڑ کر نوجوانوں میں بائیں بازو کی بنیاد کو وسیع کیا۔
سی پی آئی کی قیادت
مارچ 2012 میں 21ویں پارٹی کانگریس میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے، جہاں انہوں نے کیڈر کی تعلیم، عوامی تنظیموں کی توسیع، اور متحدہ بائیں بازو کی عوامی تحریکوں پر زور دیا، جبکہ بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کے خلاف سیکولر محاذ قائم کیے۔ ان کی قیادت میں پارٹی کی رکنیت اور خواتین و نوجوانوں کی تنظیموں میں 1990 کی دہائی کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔
عالمی نقش قدم
انہوں نے ہندوستان کا ترنگا اور سرخ پرچم 40 سے زائد ممالک میں بلند کیا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کیا، اور سوویت یونین سے منگولیا تک طلبہ کانگریسوں سے آغاز کرتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک—امریکہ اور اٹلی سے لے کر ویتنام اور جاپان تک—بھائی چارہ رکھنے والی پارٹیوں میں شرکت کی۔ ان عالمی روابط نے CPI کے تعاون کو مضبوط کیا اور گھریلو حکمتِ عملی کو تیز تر بنایا۔
قلم اور خطاب
تلگو، ہندی اور انگریزی میں ایک پرکشش مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کثیر التصانیف مصنف بھی تھے—مضامین، پمفلٹ، کتابیں اور مقالات لکھے جو عام قارئین اور کارکنوں کے لیے عصری مارکسزم کو آسان زبان میں بیان کرتے ہیں۔ ان کی تقاریر وضاحت، ہمدردی اور نظریاتی یقین کا بہترین نمونہ ہیں جنہوں نے ایک پوری نسل کو منظم کرنے کے لیے متاثر کیا۔
لال سلام
سدھاکر ریڈی نے اپنی زندگی ہر پہلو سے ایک مثالی طریقے پر گزاری۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کے نظریات اْن سب میں زندہ رہیں گے جنہیں انہوں نے متاثر کیا۔ سدھاکر ریڈی نے ہمیں ایک بہت بڑا خاندان دیا—دنیا بھر کی محنت کش تحریکیں۔ ہر وہ شخص جو “کامریڈ” کہنے پر ہاں کہتا ہے، وہ ان کے لیے خاندان کی مانند رہا اور ہمارے لیے بھی ہمیشہ رہے گا۔