لاکھ ہونٹوں پہ تبسم کی کرن رقصاں ہو

   

شجاعت علی ۔آئی آئی ایس
شیخ سعدی ؒ اور ان کے فرزند تہجد پڑھ رہے تھے۔ دعا کے بعد فرزند نے کہا ابّا حضور سب سورہے ہیں اور ہم عبادت کررہے ہیں، شیخ سعدیؒ نے اپنے بیٹے سے ہلکی سی خفگی کے ساتھ کہا اگر تمہیں دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنی ہی تھی تو بہتر یہی تھا کہ تم بھی سوئے رہتے۔ اِس حکایت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دوسروں کی خامیوں پر نظر رکھنا نیکی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ گناہ آج زندگی کے ہر شعبہ میں سرایت کر گیا ہے لوگ اپنی خامیوں کی بجائے دوسروں کی برائیوں پر نظر جمائے ہوئے ہیں۔ اس رجحان کے سبب ہمارے سماج میں بدمزگی پیدا ہورہی ہے، جس کے نتیجے میں ہم ایک دوسرے سے جڑنیکے بجائے ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری زبانیں کسی رکاوٹ کے بغیر بے انتہاء تیزی کے ساتھ چل رہی ہیں، جو کسی بھی حالت میں ہمارے معاشرے کے لئے اچھی علامت نہیں ہے۔ اِسی پس منظر کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایک بزرگ نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’پرندے اپنے پائوں اور انسان اپنی زبان کی وجہ سے جال میں پھس جاتے ہیں،

گفتگو میں نرمی اختیار کرو کیونکہ لہجوں کا اثر لفظوں سے زیادہ کاری ہوتا ہے‘‘۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ’’ دنیا کا سب سے خوبصورت پودا محبت کا ہوتا ہے جو زمین پر نہیں بلکہ دلوں میں اُگتا ہے۔۔۔!!‘‘ خاندانی شعبے ہوں کہ سماجی ، سیاسی دنیا ہو یا مذہبی معاملات ہر جا ہمیں الزامات اور جوابی الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ دکھائی دے رہا ہے، ہر کوئی اپنی ہی منطق پر بضد ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے میں ہے۔ بے عیب انسان تلاش کریں گے تو ہم اکیلے ہی رہ جائینگے۔ اچھے لوگوں کی نشانی خوش کلامی کی سوا کچھ بھی نہیں۔ عالم کو غصہ آتا ہے تو وہ اپنے آپ کو قابو میں کرنے کے لئے دو گھونٹ پانی پی کر خاموشی اختیار کرلیتا ہے یا پھر وہ اس لئے بھی کامیاب ہوجاتا ہے کیونکہ وہ غصہ کو شہد کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں اِس وقت ایک دوسرے پربے بنیاد تنقیدوں کے باعث صورتحال دھماکو ہوتی جارہی ہے۔ مفادِات حاصلہ ہر معاملے کو مذہب اور عقائد سے جوڑ کر انسانیت کی توہین کررہے ہیں۔ وہ بھول رہے ہیں کہ مذہب، انسانیت کے عروج کے لئے ہی آئے ہیں۔ دنیا کے ہر مذاہب نہ صرف انسانیت کی بقاء بلکہ اس کے عروج کیلئے آئے ہیں۔ نے اس کے ماننے والوں کو سچائی کا دامن نہ چھوڑنے کا درس دیا ہے۔ انسانیت کی خدمت کو عبادت جیسا مقام حاصل ہے لیکن اس کے باوجود لوگ سستی شہرت، عزت اور فنا ہونے والی دولت کے پیچھے دوڑتے ہوئے اپنے دین وآخرت دونوں ہی کو برباد کرنے کے در پئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک پارسا کوسونے کی بے شمار اشرفیاں مل گئیں۔ دنیا کی اس دولت نے اس کے نورِباطن کی دولت چھین لی اور وہ ساری رات یہی سونچتا رہا کہ اب میں سنگ مر مر کی ایک عالی شان حویلی بنائوں گا، نوکر رکھوں گا ، عمدہ عمدہ کھانے کھائوں گا اور اعلیٰ درجے کی پوشاک سلوائوںنگا۔ غرض تمول کے خیال نے اسے دیوانہ بنادیا۔

نہ کھانا پینا رہا اور نہ ہی ذکر حق۔ صبح کو اسی خیال میں مستی کے ساتھ جنگل کی طرف نکل گیا۔ وہاں دیکھا کہ ایک شخص ایک قبر پر مٹی گوندھ رہا ہے تاکہ اس سے اینٹیں بنائی جاسکے۔ یہ نظارہ دیکھ کر پارسا کی آنکھیں کھل گئی اور اس کو خیال آیا کہ مرنے کے بعد میری قبر کی مٹی سے بھی لوگ اینٹیں بنائیں گے۔ عالی شان مکان، اعلیٰ لباس اور عمدہ کھانے سب یہیں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اس لئے سونے کی اشرفیوں سے دل لگانا بے کار ہے۔ ہاں اگر دل لگانا ہی ہے تو خالقِ مطلق ہی سے لگانا بہتر ہوگا۔ یہ سوچ کر اس نے سونے کی اشرفیوں کی پوٹلی کہیں پھینک دی اور پہلے کی طرح زہد اور قناعت کی زندگی بسر کرنے لگا۔ ایک اور حکایت ہے کہ دو آدمی قبرستان میں بیٹھے تھے ایک اپنے دولتمند باپ کی قبر پر اور دوسرا اپنے درویش باپ کی قبر پر ۔امیر زادے نے درویش کے لڑکے کو طعنہ دیا کہ میرے باپ کی قبر کا صندوق پتھر کا ہے اس کا کتبہ رنگین اور فرش سنگ مر مر کا ہے۔ فیروزے کی اینٹ اس سے جڑی ہوئی ہیں، اس کے مقابلے میں تیرے باپ کی قبر کتنی خستہ حال ہے دو مٹھی مٹی اس پر پڑی ہوئی ہے اور دو اینٹیں ہی رکھی ہوئی ہیں۔

درویش زادے نے جواب دیا کہ یہ بات بالکل درست ہے لیکن میرے دوست یہ بھی تو سوچ کہ قیامت کے دن جب مردے قبروں سے اٹھائے جائینگے تو اس سے پہلے کہ تیرا باپ بھاری پتھروں کے نیچے جنبش کرے میرا باپ بہشت میں پہنچ جائے گا۔ شیخ سعدیؒ کی اس حکایت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ سادگی انسانیت کی معراج ہے اور موت کی یاد صحت مند معاشرے کیلئے بہترین بنیاد ہے۔ دنیا کی ایسی کوئی مقدس کتاب بتادی جائے جس میں کسی بھی فرد کو موت سے چھٹکارا حاصل ہے۔ موت سیاسی بھی ہوسکتی ہے ، معاشی بھی ہوسکتی ہے، خاتمہ معاشرتی بھی ہوسکتا ہے، یعنی ہر عروج کے بعد زوال یقینی ہے۔ جب سبھی کا خاتمہ ایک کھلا راز ہے تو اس حقیقت کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی جان کے پیاسے کیوں ہوگئے ہیں؟۔ زندگی اور موت پر صرف اور صرف خالقِ مطلق ہی کا حق ہے۔ جھوٹ ، دھوکہ، فریب اور مکاری سے وقتی شہرت، عزت اور اقتدار تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اِس کے دیرپا ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ جب عزت، ذلت، زندگی اور موت اللہ ہی کی دین ہیں تو ان سب کو جو اسے پرماتما ، God، یا ’’واہے گرو‘‘ کہہ کر بھی پکارتے ہیں، یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں نفرت ، کدورت، بدگمانی اور بدزبانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ اقوام متحدہ نفرت کے بادلوں کو الفت میں بدلنے کے لئے تمام مذہبی کتابوں کا نچوڑ اپنے چارٹر میں شامل کرتے ہوئے سارے عالم کو یہ پیغام دے کہ ’’انسانوں سے پیار ہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ ۔انسانوں سے پیار کرو یہی سب سے بڑی ہے پوجا‘‘۔اقوام متحدہ عالمی بھائی چارگی کے جذبہ سے آگے بڑھے گا تو یقینا ہماری سوچ میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی۔ کیونکہ آج ہم ظاہری طورپر مسکراتو رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ اندر ہی اندر کرب کے احساس دبے جارہے ہیں۔ دبی دبی کوششوں کے باوجود ہم اپنے درد کو چھپانہیں پاتے۔ چنانچہ یہ پوشیدہ غم اس طرح سے ظاہر ہو ہی جاتاہے کہ
لاکھ ہونٹوں پہ تبسم کی کرن رقصاں ہو
درد پھر درد ہے چہرے سے نمایاں ہوگا