لاک ڈاؤن اور رمضان کی خریداری

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
کورونا وائرس کا پیغام ہر روز کروڑہا انسانوں کو خوف زدہ کررہا ہے ۔ حکومت کی سطح پر وباء پر قابو پانے کا واحد طریقہ لاک ڈاؤن اختیار کرنے سے عوام کو یقین ہورہا ہے کہ ایک دن یہ بلا ان کے سروں سے ٹل جائے گی ۔ اس لیے لوگوں نے خود کو گھروں میں بند کرلیا ہے ۔ اس مرض سے بچنے کے لیے لوگوں نے حکومت کی ہدایات پر سختی سے عمل کرنا شروع کیا ۔ لیکن اس لاک ڈاؤن سے جو معاشرتی اثرات ظاہر ہورہے ہیں وہ خوفناک ہیں ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس جیتی جاگتی دنیا کو یکلخت نیم مردہ بنادیا گیا ۔ چلتی ہوئی سرگرم دنیا تھم کر رہ گئی ہے ۔ رمضان کے مقدس ماہ میں مسلمانوں کے لیے مساجد بند ہیں ۔ تراویح گھروں میں ہورہی ہے ۔ سارا رمضان یوں ہی گذر جائے گا ۔ تلنگانہ کے 33 اضلاع کے منجملہ 6 اضلاع کو مرکزی حکومت نے ریڈ زون قرار دیا ہے ۔ ملک بھر کی تمام ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کے 733 اضلاع کو ریڈ زون میں تبدیل کردیا گیا ۔ تلنگانہ میں 7 مئی کے بعد بھی لاک ڈاؤن برقرار رکھنے پر غور ہورہا ہے ۔ حیدرآباد کے علاوہ رنگاریڈی اور میڑچل ، ملکاجگیری ، سائبر آباد اور سکندرآباد کے علاقہ بھی ریڈ زون میں ہیں ۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن جی ایچ ایم سی زمرہ میں یہ تمام علاقے آتے ہیں ۔ وقار آباد ، ورنگل اربن کو بھی ریڈ زونس میں رکھا گیا ۔ تمام ریاستوں کے چیف سکریٹریز کو روانہ کردہ مرکز کی نوٹسوں کے مطابق آنے والے دنوں میں حیدرآباد کو مزید سخت ہدایات پر عمل کرنا ہوگا جب کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے یہ کہا تھا کہ جی ایچ ایم سی کے تقریبا 30 سرکلوں میں کورونا وائرس کا ایک بھی پازیٹیو کیس نہیں ہے اور دیگر سرکلوں میں کوئی سرگرم کیس نہیں ہے تو پھر اس شہر کو ریڈ زون قرار دینے کا مطلب کیا ہے ۔

لاک ڈاؤن کے ذریعہ سماجی دوری پیدا کرنے کے ساتھ یہ حکومت کئی طرح کے مسائل کو دعوت دے چکی ہے ۔ آنے والے چند ماہ تک ریاستوں کا کیا حال ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا ۔ مرکز نے لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے مزدوروں ، شہریوں کو اپنے مقامات تک پہونچنے کے لیے کچھ راحت کے اقدامات کیے ہیں جس کے تحت حیدرآباد سے ایک خصوصی ٹرین 1200 مزدوروں کو لے کر جھارکھنڈ کے لیے روانہ ہوئی ۔ 25 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ ہونے کے بعد سے ملک بھر میں لاکھوں مزدور پھنسے ہوئے ہیں ۔ اس لاک ڈاون نے کئی غریبوں کو جینے کی آرزو چھین لی ہے ۔ لاک ڈاون پر سختی سے عمل کرنے کی کوشش میں پولیس کا ظالم روپ بھی سامنے آرہا ہے ۔ تقریبا 40 دن سے عوام پر پولیس کی لاٹھیاں برستی نظر آرہی ہیں ۔ راشن ، ڈاکٹرس اور ضروری اشیاء کے حصول کے لیے گھروں سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔

پولیس ہر موڑ پر شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ گاڑیوں کو ضبط کررہی ہے ۔ ہڈیاں توڑ رہی ہے ۔ تلنگانہ ہی نہیں سارے ملک میں پولیس تشدد کا ایک نیا ریکارڈ سامنے آیا ہے ۔ دوسرے مرحلے کے لاک ڈاؤن کے بعد سے تو پولیس ملازمین گویا نفسیاتی تشدد کا شکار ہوچکے ہیں ۔ حیدرآباد میں پولیس کے وحشیانہ رول پر کئی ملازمین کو معطل بھی کیا جاچکا ہے اور پولیس کو نرمی اختیار کرنے کی ہدایت بھی دی جاچکی ہے ۔ لیکن عوام دوست پولیس ہونے کا دعویٰ کرنے والے محکمہ کے بارے میں عوام کے اندر غم و غصہ پیدا ہوچکا ہے ۔ اگر یہی حال برقرار رہے تو آنے والے دنوں میں لوگ بھی پرتشدد بن جائیں گے ۔ سرکاری مشنری کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا ۔ یہ مہینہ مئی محنت کشوں کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ میں بھی وباء کورونا وائرس سے مزدوروں کو چھٹکارا نہیں ملے گا ۔ کورونا سے نجات کے لیے سرکاری سطح پر صرف بحث ہی ہورہی ہے ۔ میڈیا میں اس وباء پر خدشات ، امکانات ، پیشن گوئیاں اور خوشخبریاں ہی سنی جارہی ہیں ۔ سماجی ، معاشی اور سیاسی زندگی کو منجمد کرنے والے وائرس نے زندگیوں کو بے روح کردیا ہے ۔ بے سرو سامانی کے باوجود مسلمانوں نے ثابت قدمی سے کام لیتے ہوئے روزہ ذکر و اذکار اور عبادتوں کے ذریعے خود کو گھروں میں بند کرلیا ہے ۔ اللہ کو راضی کروانے کا بہترین موقع ہے ۔ مساجد بند ہیں لیکن اللہ سے دعا گو ہیں کہ اس وائرس کے خطرات سے ساری دنیا کو نجات دلا دے ۔

سسکتی انسانیت کو مہلک وبائی مرض کا سامنا ہے ۔ اب تک اس وباء کا اثر کم نہیں ہوا ہے ۔ ہندوستان میں بالخصوص تلنگانہ میں وائرس کے اثرات اور کیس برقرار ہیں ۔ گذشتہ جمعرات کو وائرس کے کیسوں میں اچانک اضافہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے لیے تشویش کا باعث بن گئے ۔ انہوں نے کیسوں میں کمی پر لاک ڈاؤن میں نرمی کا منصوبہ بنایا تھا ۔ اب نئے کیسوں کے اضافہ کے بعد حیدرآباد میں کنٹنمنٹ زونس میں مزید سختی کی ہدایات دی ہیں ۔ اس طرح ہر ریاست کا لیڈر اور حکمراں بے بسی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ کئی ریاستوں نے تو اپنی سرحدوں کو بند کردیا ہے ۔ کہیں دیوار بنا دئیے گئے ہیں تو کہیں سڑکوں پر کھڈ کر کے ٹریفک کو روکا جارہا ہے ۔ گویا سارا ہندوستان ایک دوسرے سے قطع تعلق کررہا ہے ۔ راستے مسدود، عوام سے عوام روابط منقطع ہوچکا ہے ۔ حکومتوں کے علاوہ علاقائی سطح پر عوام نے بھی اپنے علاقوں کو بند کرلیا ہے ۔ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو اپنے علاقہ میں داخل ہونے سے روکا ہے ۔ اس وباء نے انسانوں کی اجتماعی ذہنی صحت اور حالت کو ہی بگاڑنا شروع کردیا ہے ۔ آپ اپنے اطراف و اکناف کے ماحول اور عوام کے طرز عمل پر غور فرمائیں تو اندازہ ہوگا کہ اگر یہ صورتحال یوں ہی برقرار رہی تو لوگوں کا کیا حال ہوجائے گا ۔ یہ اجتماعی ذہنی حالت دن بہ دن بگڑتی جائے تو نئے انسانی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔ اس وائرس نے انسانوں کو ایک طویل صبر آزما سفر پر لگادیا ہے ۔ رمضان میں بازار کھولنے کی باتیں بھی ہورہی ہیں تاکہ مسلمانوں کو عید کی خریداری کا موقع مل سکے ۔ اس خبر کے ساتھ ہی یہ بیانات اور ویڈیوز بھی سامنے آرہے ہیں کہ مسلمانوں کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ آپ لوگ رمضان کی خریداری مت کریں ۔ جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسلمانوں کی مساجد بند کردی گئی ہیں تو چند منافع خور تاجروں کے فائدے کے لیے لاک ڈاؤن میں مارکٹ کھول کر مسلمانوں کی جمع پونجی حاصل کر کے اپنا معاشی موقف مضبوط بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ وہ لوگ عید کی خریداری ترک کریں ۔ نئے کپڑے سلوانے اور عید کی دیگر مصروفیات کو ترک کریں ۔ یہ بات شدت سے زور دے کر کہی جارہی ہے کہ لاک ڈاون کا سلسلہ آئندہ 3 تا 4 ماہ تک جاری رہے گا ۔ اس لیے مسلمان اپنے پیسوں کی جمع بندی کو بچا کر رکھیں تاکہ آگے کام آسکے ۔ کورونا وائرس نے ساری دنیا کی معیشت کو قحط کا شکار بنادیا ہے ۔ ہر ملک میں مزدور طبقہ ، غریب افراد اور مجبور لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو کر اقتدار کے ایوانوں پر پتھر برسانے لگیں گے ۔ یہ حالات خود کو وائرس سے بچانے کے ساتھ اپنی رقومات کو محفوظ رکھنے کے متقاضی ہیں ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ رمضان کی خریداری سے گریز کریں اور خود کو آگے کے لیے تیار رکھیں ۔۔