تاریخ اسلام کے ایک ہیرو کے کارناموں کو جاننے کا موقع ۔ انقلابی تبدیلی کے آثار
حیدرآباد۔12مئی(سیاست نیوز) لاک ڈاؤن کے مثبت پہلوؤں میں کئی ایک پہلو سامنے آرہے ہیں لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں میں انقلابی تبدیلی کے بھی آثار پیدا ہونے لگے ہیں۔ چند برس قبل تک ہندستانی سیکوریٹی ایجنسیوں کی جانب سے حریت پسند نوجوانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں شدت پسند ثابت کرنے کیلئے ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ صلاح الدین ایوبی ؒ کی تاریخ پر مبنی ’’ داستان ایمان فروشوں کی‘‘ کے علاوہ حضرت خالد بن ولیدؓ پر لکھی گئی داستان ’’ شمشیر بے نیام‘‘اور محمد بن قاسم کی داستان ’’ ستارہ جو ٹوٹ گیا‘‘ کے مطالعہ کے شوقین تھے اور ان کتب کی وجہ سے نوجوانوں میں شدت پسندی اور حریت پیدا ہونے لگی ہے لیکن لاک ڈاؤن کی اس مصیبت کے دوران عالم اسلام کے نوجوانوں کو تاریخ اسلام کے ایک اور ہیرو کی داستان کو جاننے کا موقع ملا ہے جو کہ عالم اسلام میں اتحاد کا نقیب ثابت ہونے کے علاوہ منافقین کی پہچان کروانے میں انتہائی اہم ثابت ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہاہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں گذشتہ چند ماہ سے غازی ارطغرل پر تیار کی جانے والی سیریز کی دھوم ہے اور لاک ڈاؤن کے دوران مسلم نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ ’’غازی ارطغرل‘‘ بنا ہوا ہے جو کہ ان کی شخصیت کو بے انتہاء متاثر کرنے لگا ہے۔ غازی ارطغرل جو کہ خلافت عثمانیہ کے بانی ہیں کی زندگی پر مشتمل اس داستان میں مسلم امت کا تصور اور اامت میں اتحاد کو پیدا کرنے کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے علاوہ اس جدوجہد کو نقصان پہنچانے والے منافقین کی سازشوں کو بہتر انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس سیریز کا مسلم نوجوان سنجیدگی سے مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کی سیاسی بصیرت میں اضافہ ہونے کے علاوہ انہیں اس بات کا بھی احساس ہونے لگ جائے گا کہ امت مسلمہ کو منافقین سے کس طرح نقصان پہنچا ہے اور منافقین نے اپنے اقتدار اور حکومت کی برقراری کیلئے مسلم دشمن طاقتوں حتی کے صلیبیوں سے بھی اتحاد کرتے ہوئے امت واحدہ کے شیرازہ کو بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔غازی ارطغرل نے اپنی کوششوں اور دین کی سربلندی کیلئے حریت پسندی کی راہ اختیار کرتے ہوئے جو حکمت اختیار کی تھی اس پر مشتمل اس سیریز کے دلدادہ لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہاہے اور کہاجا رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے اس دور میں حاصل ہونے والے فرصت کے لمحات میں غازی ارطغرل کی تاریخ کامشاہدہ عوام کا بھی محبوب مشغلہ بن چکا ہے جو کہ ارباب اقتدار اور منافقین کیلئے انتہائی ناپسندیدہ ہوتا جا رہاہے اور وہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس سیریز پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ منافقین کو اس سیریز سے خدشہ لاحق ہوتا جا رہاہے اور وہ یہ تصور کر رہے ہیں کہ اگر اس سلسلہ کو جاری رکھا گیا تو عوام کی سیاسی بصیرت میں اضافہ ان کے محلات کوکھنڈر میں تبدیل کردے گا اور عوام پر یہ راز منکشف ہونے لگ جائیں گے کہ امت کو نقصان پہنچانے والے منافقین کی تاریخ صرف جمہوریت میں نہیں ہے بلکہ قبائیلی آبادیوں میں بھی امت مسلمہ کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے اور صدارت و ٹھیکہ داری کے لئے کی جانے والی سازشوں کی طویل تاریخ رہی ہے ۔ غازی ارطغرل کو جس دلچسپی کے ساتھ فلمایا گیا ہے اور تاریخ خلافت کو جس طرح سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کے سبب اس میں پیدا ہونے والی دلچسپی ان لوگوں کے لئے بھی خطرہ ثابت ہوگی جو کہ امت میں صلیبی یا اسلام دشمن قوتوں کی بھیڑوں کی طرح کام کررہی ہیں کیونکہ اس سیریز کا مشاہدہ کرنے والوں کے ذہنوں میں تاریخ کے وہ کردار جب ذہن میں آجائیں گے تو دور حاضر کا بھی جائزہ لینے لگ جائیں گے اور اب انہیں ’داستان ایمان فروشوں کی ‘ یا ’شمشیر بے نیام‘ یا پھر ’ستارہ جو ٹوٹ گیا‘ پڑھنے کیلئے اردو سیکھنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ ’غازی ارطغرل‘ سیریز نے نوجوان نسل میں خلافت کی تاریخ کے ساتھ صلیبیوں کی سازشوں اور صلیبیوں کے پروردہ منافقین کی پہچان کروانی شروع کردی ہے اور یہ خلافت عثمانیہ کی تاریخ کی ابتداء کے واقعات سے یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ امت مسلمہ کو اگر نقصان پہنچا ہے تو امت میں موجود منافقین سے اور امت مسلمہ کے درمیان انانیت کے اختلافات کی وجہ سے ہی پہنچا ہے۔