لاک ڈاؤن میں نرمی کے نام پر حکومت نے عوام کو ان کے حال پرچھوڑدیا

,

   

حیدرآباد(مبشرالدین خرم کی خصوصی رپورٹ): حکومت تلنگانہ نے عوام کو اپنے حال پرچھوڑدیا ہے۔ ریاست میں کورونا وائر س کے مریضوں کی بڑھتی تعداد کا جائزہ لینے او رحکومت کے اقدامات سے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ حکومت نے عوام کو ان کے حال پر چھوڑدیا ہے کیونکہ حکومت اب مزید لاک ڈاؤن برداشت کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ شہریوں کو ان کے حال پرچھوڑدینے کا فیصلہ حکومت کیلئے تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ حکومت نے رعایتوں اور راحت کے نام پر جو اقدامات کئے ہیں اور سماجی فاصلہ کی برقراری کی دھجیاں اڑائی جانے کے باوجود خاموشی اختیار کی جارہی ہے وہ سنگین حالات پیدا کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔

حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران جو ماحول پیدا کیا تھا کے اس کے ذریعہ عوام میں کورونا کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اچانک حکومت نے اپنے موقف میں تبدیلی لاکر یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ کورونا کے ساتھ زندگی گذارنے کے کے طریقہ سیکھنے اور ان پر عمل کی ضرورت ہے۔ حکومت کے موقف میں تبدیلی کے متعلق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ معاشی ابتر سنگین مسئلہ ہے او رلاک ڈاؤن کے جاری رکھتے ہوئے ریاست کی آمدنی میں اضافہ کے اقدامات کوممکن بنایاجاسکتا ہے۔

اسی لئے حکومت سے کورونا وائرس کے ساتھ زندگی گذارنے کی بات کی جارہی ہے جبکہ کورونا وائرس کے ساتھ زندگی گذارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ بازاروں میں ہجوم کی جانب سے سماجی فاصلہ برقرار نہ رکھے جانے کے سلسلہ میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان حالات میں سوائے تصویر کشی کے ذریعہ چالان کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بلدیہ حیدرآباد کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے احکامات کا انتظار کررہے ہیں۔ کورونا مریضوں کی بڑھتی تعداد پر سوال کے جواب میں کہا جارہا ہے کہ حکومت کورونا وائرس کے ایک لاکھ مریضوں کی نگہداشت کے موقف میں ہے اور ریاست میں پانچ ہزار وینٹی لیٹرس کو تیار رکھا گیا ہے۔ عوام کے سنجیدہ طبقات حکومت سے استفسار کررہے ہیں کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کس لئے کیا تھا؟ مریضوں کی تعداد میں اضافہ سے روکنے یا کورونا سے نمٹنے طبی نگہداشت کوبہتر بنانے؟ لاک ڈاؤن میں جواحتیاطی اقدامات کئے جارہے ہیں اب وہ نہیں کئے جارہے ہیں۔ کورونا اموات کے باوجود ان مکانات کو کنٹینٹمنٹ زون قرار نہ دئے جانے کے علاوہ نظر انداز کی پالیسی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ دونوں شہروں کے علاوہ گریٹر حیدرآباد کے حدودمیں مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور محلہ جات میں کوئی پابندی نہ ہونے سے جو حالات پیدا ہورہے ہیں وہ شہریوں اور حکومت کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ بازاروں میں ہجوم اور رہنمایانہ خطوط پر عدم عمل آوری پر کہا جارہا ہے کہ رعایت کے درمیان اگر پابندیاں عائد کی جاری رہیں گی تو مسائل پیدا ہوں گے۔ اس لئے عہدیداران ان مسائل سے نمٹنے کوئی اقدامات نہیں کررہے ہیں۔ذرائع کے مطابق عہدیداروں اور اہل کاروں کو بھی اب کورونا کا خوف ہونے لگا ہے۔ اسی لئے وہ عوام سے دور رہنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلدی عملہ بھی صفائی مہم پر اکتفا کررہا ہے او رمحکمہ صحت کے عہدیدار بھی عثمانیہ میڈیکل کالج میں کورونا مریضوں کی تعداد سے پریشان ہیں۔ شہر کے کئی محلہ جات میں مریضوں کی توثیق کے باوجود قرنطینہ کے اقدامات نہ کرنے سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کا خدشات ہیں اور عوام کورونا سے اموات اور مریضوں کو نظر انداز کئے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرنے لگے ہیں او رحکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جانے لگے ہیں۔