تعمیری میٹریل اور مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ، پراجکٹس کی مالیت میں تبدیلی کا امکان
حیدرآباد۔/7جولائی، ( سیاست نیوز) کورونا وباء کی شدت میں کمی اور لاک ڈاؤن کے خاتمہ کے بعد رئیل اسٹیٹ شعبہ میں اُمید جاگی تھی کہ دوبارہ تعمیری سرگرمیاں بحال ہوں گی اور گزشتہ ایک سال کے دوران جس خسارہ کا سامنا کرنا پڑا اس سے نجات حاصل ہوگی۔ رئیل اسٹیٹ شعبہ خاص طور پر رہائشی مکانات کی تعمیر میں مصروف افراد کیلئے لاک ڈاؤن کے خاتمہ سے کوئی راحت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ وباء کے آغاز کے ساتھ ہی تعمیری مزدور اپنے آبائی مقامات واپس ہوچکے تھے جس کے نتیجہ میں تعمیراتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کے باوجود مزدوروں کی دستیابی کی صورت میں رئیل اسٹیٹ شعبہ کو تعمیری کام جاری رکھنے کی اجازت دی تھی لیکن مزدور دستیاب نہیں تھے۔ اب جبکہ تلنگانہ میں عام زندگی معمول پر لوٹ رہی ہے لیکن رئیل اسٹیٹ شعبہ کو ایک طرف تعمیری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ تو دوسری طرف لیبر کی تنخواہوں میں اضافہ کا سامنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سمنٹ، ریت، اسٹیل اور دیگر تعمیری اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں بلڈرس پہلے سے طئے شدہ معاہدہ کے مطابق پراجکٹ کی تکمیل میں دشواری محسوس کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میٹریل کی لاگت 20 تا30 فیصد بڑھ چکی ہے۔ ایک ٹن اسٹیل 55 تا 60 ہزار روپئے میں حاصل ہورہا ہے جبکہ لاک ڈاؤن سے قبل اس کی قیمت 40 تا 50 ہزار تھی۔ اینٹ کی قیمت 8 تا 10 روپئے ہوچکی ہے جبکہ سابق میں یہ 6 تا 7 روپئے تھی۔ ریت کی قیمت فی ٹن 2 ہزار تا 2500 روپئے ہے جبکہ لاک ڈاؤن سے قبل یہ 12 سو تا 16 سو روپئے فی ٹن تھی۔ عام طور پر ماقبل مانسون ریت کی قیمت زائد ہوتی ہے جبکہ مابعد مانسون قیمت میں کمی درج کی جاتی ہے۔ بلڈرس کا کہنا ہے کہ سابق میں عوام سے گھر یا فلیٹ کیلئے جس قیمت کا معاہدہ کیا گیا تھا اسی پر قائم رہنا دشوار ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں بلڈنگ میٹریل کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ لاک ڈاؤن نے معاشی طور پر پریشان حال تعمیری مزدوروں کے چارجس میں اضافہ کردیا ہے۔ ایک طرف مزدوروں کی تعداد کم ہے لہذا ان کی تنخواہ میں اضافہ کرنا بلڈرس کی مجبوری بن چکی ہے۔ سابق میں میستری کیلئے روزانہ 700 تا800 روپئے مزدوری تھی جو اب 1100 سے 1200 روپئے ہوچکی ہے۔ غیر منظم تعمیری شعبہ کیلئے میستری 1500 سے زیادہ روپئے وصول کررہے ہیں۔ خاتون مزدوروں کو روزانہ 600 روپئے دیئے جاتے تھے جو اب بڑھ کر 800 تا 1000 روپئے ہوچکے ہیں۔ مرد مزدور روزانہ 500 روپئے کے بجائے 800 روپئے تک وصول کررہے ہیں۔ بلڈرس کا کہنا ہے کہ جو فلیٹ 30 تا 40 لاکھ مالیت کے تھے چارجس اور میٹریل کی قیمتوں میں اضافہ سے ان کی لاگت 50 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔