افسوسناک انکشاف اور قاضیوں کی ملی بھگت
محمد اسد علی ، ایڈوکیٹ
حالیہ چند مہینوں کے دوران ساری دنیا میں کورونا وائرس وباء تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس وقت بھی عوام خوف کے سایہ میں زندگی گذاررہے ہیں۔ سماجی فاصلے پر زور دیا جارہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں سائنسدانوں کی انتہائی کوشش کے باوجود تاحال اس مرض کا نہ تو کوئی ویکسن اور نہ کوئی دوا تیار ہوسکی ہے۔ امید ہے کہ بہت جلد سائنسدانوں کی کوشش بارآور ہوں گی اور اللہ تعالیٰ چاہا تو اس مرض کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس دوران میں ایک افسوسناک پہلو منظر عام پر آیا ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران کمسن لڑکیوں کی زندگی کے لئے ایک بحران ثابت ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ سیاست میں شائع نیوز مورخہ 4 جولائی صفحہ نمبر 2 میں ’’لاک ڈاؤن کے دوران کم عمر لڑکیوں کی شادیاں‘‘ کے مطابق کم عمر لڑکیوں کی زیادتیوں کے ساتھ شادیاں کی گئی ہیں۔ بچوں کی شادی کے خلاف تحدیدی قانون 1929 کے نفاذ کا مقصد بچوں کی شادیوں کو روکنا تھا جس میں 1949 اور 1978 میں ترمیم کی گئی جس کا مقصد دیگر باتوں کے علاوہ شادی کے لئے مرد اور خواتین کی حد عمر میں اضافہ تھا، اگرچیکہ اس قانون کے ذریعہ ’’بچہ شادیوں‘‘ پر امتناع عائد کیا گیا ہے تاہم اس کے ذریعہ ایسی شادی کو کالعدم یا غیر قانونی نہیں قرار دیا گیا ۔ قانون کے تحت کم عمر بچے یا بچی کی شادی کو قابل تعزیر قرار دیا گیا ہے یہاں قانونی لحاظ سے بچہ کا مطلب ایک ایسا شخص جو مرد ہو جس کی عمر 21 سال مکمل نہ ہو اور اگر لڑکی ہو تو اس کی عمر 18 سال مکمل نہ ہو اس صورت میں قابلِ تعزیر قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ بچہ یا کمسن لڑکا یا لڑکی کی شادی کا مطلب ایک ایسی شادی ہے جس میں لڑکا یا لڑکی شامل ہے جو لڑکا 18 سال سے زائد عمر کا ہو اور وہ بچہ شادی یا کمسن لڑکی سے شادی کررہا ہو تو اسے سزا قید با مشقت قید ہوگی جس کی میعاد 2 سال یا اس سزا کے علاوہ جرمانہ بھی ہوسکتا ہے جو ایک لاکھ روپے تک کیا جاسکتا ہے
اور دوسری صورت میں دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں جو قانونی طور پر کمسن لڑکی یا لڑکے سے شادی کرکے اس کا انعقاد عمل میں لائے اس کی ہدایتوں یا اس میں مدد کرلے اسے سزائے قید بامشقت ہوگی جس کی میعاد 2 سال ہوگی علاوہ ازیں وہ ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزاء کا مستوجب ہوسکتا ہے۔ تاوقتیکہ وہ یہ جواز پیش نہ کرے وہ اس شادی کو بچہ شادی یا کمسن فریب کی شادی نہ سمجھتا ہو۔ یہاں اس بات کو نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ بعض قاضی نابالغ لڑکے یا لڑکیوں کو قانونی بالغ ظاہر کرتے ہوئے ان کا نکاح پڑھاتے ہیں۔ اگر شرعی طور پر لڑکی بالغ ہو تو دوسری طرف ملک کا قانون اس حد کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور اس کے ذریعہ بلوغت کی حد عمر کا تعین کیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر فریقین یا فریق کو قید بامشقت کے علاوہ جرمانہ بھی ہوسکتا ہے جس میں شادی کے ذمہ داران بشمول قاضی بھی ذمہ دار ہوتے ہیں عام طور پر یہ ایک عام بات ہے کہ بعض قاضی اپنے ذاتی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اس کی تکمیل کے لئے خفیہ طور پر شادی کروادیتے ہیں اور اس کا خمیازہ فریقین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قاضی عام طور پر اس عمل کے سلسلے میں نظر انداز کرلئے جاتے ہیں بتایا گیا ہے کہ اگرچیکہ لڑکا یا لڑکی شرعی اعتبار سے بالغ بھی ہوتو قانونی طور پر ان کا بالغ ہونا ملک کے قانون کے تحت ضروری ہے۔ اگر خلاف ورزی ہوتو اس کی سزاء قانونی طور پر نہ صرف فریقین بلکہ قاضی پر بھی عائد ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے جو اس کا سب سے بڑا ذمہ دار ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ صرف ’’ہوس ذر‘‘ کے لئے ہی بعض قاضی ایسے نکاح پڑھاتے ہیں جس میں لڑکی کو کھلے طور پر دھوکا دیا جاتا ہے اور قاضی اس سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس کی تکمیل کرتے ہیں تاکہ انہیں مالی منفت حاصل ہو ہر قاضی ایسا نہیں کرتے بہت سے قاضی ایسے بھی ہیں جو دیانتداری سے اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جو مذہب اور قانونی اعتبار سے جائز ہوتا ہو۔ اکثر کئی موکلین کے ذریعہ شکایتیں آتی ہیکہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا ہے اور بعض اوقات شوہر ہو یا بیوی طلاق کے لئے قاضی سے رجوع ہوتے ہیں جبکہ وہ عام طور پر خواتین کے ساتھ کونسلنگ ہو یا جھگڑے سلسلے میں سخت ناانصافی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض مہیلا منڈل اور دیگر دوسرے کونسلنگ سنٹر میں اگر شکایت کنندہ خاتون کونسلنگ کے لئے رجوع ہوتی ہے تو وہاں دولت مند شوہر پیسوں کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ عہدیداروں کو خاموش کرتے ہوئے فیصلہ اپنے تائید میں کرواتا ہے جس سے لڑکی کو سخت ناانصافی اور مصیبت کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ اگر قاضی ہویا مہیلا منڈل کے لوگ اگر خواتین کے ساتھ نا انصافی یا جانب داری کا مظاہرہ کرے تو اس صورت میں شکایت کنندہ خاتون کو متعلقہ پولیس اسٹیشن سے ناانصافی کی شکایت کرنی چاہئے اور اس طرح خواتین پر مظاہرہ کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ مزید برآں ضروری ہیکہ ہر مہیلا منڈل میں ایک خاتون اور مرد پولیس عہدیدار کی حکومت تلنگانہ کی جانب سے تعینات کیا جانا چاہئے جو کونسلنگ کے دوران فریقین مخالف کی دھمکیوں کی روک تھام کی جاسکے اور جبراً شکایت کنندہ خاتون کی رضامندی حاصل نہ کی جاسکے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ قابل اعتراض کردار والے بعض قاضی، اور بعض مہیلا منڈل کے لوگ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے صحیح راستہ اختیار کرلیں ورنہ یوم حشر بلکہ قبر میں بھی بازپرس ہوگی۔ مزید تفصیلات کے لئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔